اس گردشِ حالات نے مجبور کر دیا
ہم کو شکستِ ذات نے مجبور کر دیا
دشتِ الم کی رات گزاری نہیں گئی
دل سوزئی حیات نے مجبور کر دیا
پتھر ہماری راہ میں حائل نہیں ہوۓ
شیشے کی کائنات نے مجبور کر دیا
نازک معاملہ تھا رہِ حق میں پیار کا
حد درجہ التفات نے مجبور کر دیا
آسودگی ملے جسے چاہت میں پھر اسے
بے فیض روایات نے مجبور کر دیا
محفل کی آب و تاب سے خیرہ ہوئی نظر
خوش رنگ خیالات نے مجبور کر دیا
آۓ گی پھر بہار یقیں تھا مجھے یہ شآد
حالاتِ بے ثبات نے مجبور کر دیا
شجاع الزماں خان شاد