غزل
اشک امڈیں تو انہیں پلکوں پہ روکا جائے
کیوں یہ پندار وفا صورت گریہ جائے
جب سے دیکھے ہیں تری آنکھوں کے ساگر ہم نے
اک نئی آرزو ابھری ہے کہ ڈوبا جائے
میں سماعت میں سمیٹے ہوں ہزاروں دشنام
ضبط غم کا ہے یہ ارشاد نہ بولا جائے
ہم کو اس خواب محبت سے جگایا کس نے
نقش چہروں پہ عداوت کا نہ دیکھا جائے
زخم خوردہ نہ کہیں انگلیاں وحشت ہو جائیں
بربط دل کو کسی کے نہ یوں چھیڑا جائے
دل ہے مصلوب انا بام پہ سورج بھی نہیں
کس طرح گھر کے اندھیروں کو اجالا جائے
پاؤں جب خار مغیلاں سے ہیں چھلنی عابدؔ
کیوں نہ پھر آتش نمرود میں اترا جائے
عابد جعفری