افسانہ
آخری مکتوب
تحریر شاز ملک فرانس
میں جونہی ہسپتال کے کرونا وارڈ میں داخل ہوئی تو سسٹر ماریہ نے آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوۓ کہا بیڈ نمبر دس تھوڑی دیر پہلے ایکسپائر ہو گیا ہے کیا میرے منہ سے بے اختیار نکلا ۔۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔ میری آنکھوں میں بے اختیار نمی در آئی تھی اور میں اپنے ہاتھ میں پکڑے لفافے پر پسینے کی نمی محسوس کر رہی تھی ۔۔ کرونا وارڈ کے مریضوں کے پاس جانے کے لئیے مخصوص لباس پہننا گرمی میں عذاب سے کم نہیں تھا ۔۔ مگر زندگی بچانے والوں کو خود اپنی زندگی بھی بچانا ضروری ہوتا ہے ۔۔میں دوڑتی ہوئی بیڈ نمبر دس کی طرف گئی جہاں سفید چادر میں سر سے پیر تک بندھے اس وجود کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اور مجھے یاد آیا کل رات میں ابھی وارڈ سے چکر لگا کر پلٹی ہی تھی کہ دس نمبر بیڈ کے مریض نے ہولے سے پکارا ڈاکٹر میری بات سنیئے ۔۔ میں ٹھٹھک کر پلٹی ۔۔ تو اس نے جھجھکتے ہوۓکہا میرا ایک کام کر دیں گی ؟ کیا ؟ میرے منہ سے بے اختیار نکلا ۔۔ اس نے دستانے پہنے کپکپاتے ہاتھوں سے میری جانب ایک لفافہ بڑھا دیا اسے پوسٹ کر دیں گی ۔۔ پھر جلدی سے بولا میں نے ہاتھ سینی ٹائز کئیے ہیں امید ہے لفافہ جراثیم سے پاکُ ہو گا اور ۔۔ اور یوں بھی میں باؤ ضو رہتا ہوں ۔۔ با وُضو ۔۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا تو وہ ہلکی مسکراہٹ سے بولا ڈاکٹر تیمم کر لیتا ہوں ۔۔ میں نے اپنی کم عقلی اور بے تکے سوال پر خود کو دل ہی دل میں ملامت کرتے ہوۓ ندامت سے سر جھکا لیا۔۔ اور اسکے ہاتھ سے لفافہ لے لیا ۔۔آج ہی پوسٹ کر دیں گی میں نے اثبات میں سر ہلایا تو اس نے شکریہ کہا تبھی اسے کھانسی آنے لگی اور اس کا سانس اکھڑنے لگا ۔۔ میں نے جلدی سے اسپرے کیا اور آکسیجن ماسک لگانے لگی ۔۔تو وہ ہولے سے سانس کھنچتے ہوۓ کہنے لگا عاشق رسول ہوں بس درود پڑھتے ہوۓ دم نکل جاۓ تو راحت مل جاۓ ۔۔ میں نے نم آنکھوں سے اسے دیکھااور کہا آپ جلد ٹھیک ہو جائینگے ۔۔اس نےبغور میری طرف دیکھا اسکے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ پھیل گئی اور پھر اس نے نقاہت سے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔ڈیوٹی ختم کر کے گھر آکر جلدی جلدی کام نبٹا کر کپکپاتے ہاتھوں سے اپنا بیگ اٹھایا جیسے ایک کپکپہاہٹ میرے وجود پر طاری تھی میں نے بے تابی سے پرس سے وہ لفافہ نکالا اور بے اختیار اسے کھولُکر پڑھنے لگی ۔۔ کہیں کہیں آنسوؤں کی نمی سیاہی کو بکھرا گئی تھی اسلام و علیکم کیسی ہو آپ ۔۔ کہاں گم ہو ۔۔۔ کہاں تُم ہو ۔۔؟ یارِ من سنو نا ۔۔ مگر تم میری سنتی ہی کب ہو ۔۔ سنتی ہوتیں تو کیا جدائی مقدر بنتی۔ ہسپتال کے بستر کی سفید چادر اب مجھے کفن جیسی لگنے لگی ہے کیسے کہوں کہ کرونا وبا کے ان دنوں میں نجانے مجھے کیوں لگنے لگا ہے کہ میرے پاس وقت بہت کم ہے ۔۔۔کرونائی ماحول نے سب کو منہ چھپانے پر مجبور کر دیا ہے ۔۔ کرونا وبا کی موت بھی بڑی بھیانک ہے ۔۔ لوگ ملنے سے کترانے لگے ہیں ۔ ہاتھ ملانے سے ڈرنے لگے ہیں ۔۔ اور اسی لئیے تنہا پسند کہلانے لگے ہیں ۔۔ کرونا وبا کے شکار بیمار لوگ ایسی تنہائی کا شکار ہیں کہ وبا سے نہیں تنہائی کے خوف سے ہی مرنے لگے ہیں ۔۔ بے گور و کفن لاشیں جنہیں کوئی دفنانے کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں لگتا ہے وبا کی صورت آسمان سے نحوستوں کا نزول ہوا ہے ۔۔ سب کو لگتا ہے وبا سے مر جائینگے شاید اسی احساس سے مغلوب ہو کر پتا نہیں کیوں آج آپکو کچھ الفاظ صورتِخط لکھنے کو چاہا تو یہ الفاظ سپردِ قلم کر رہا ہوں ۔۔۔ مجھے علم نہیں تھا ۔۔کبھی کبھی اس عارضی زندگی کی کھٹن رہگُزر پر چلتے چلتے ایسے ابدی مقام بھی آتے ہیں جہاں راہ زیست کے مسافر کا پہلا قدم ہی آخری ہوتا ہے یعنی دل دماغ سوچ اور روح مفلوج ہو کر راہ زیست کے مسافر کو اپنا سفر تمام کرنے کا اِ ذن دے دیتی ہے۔۔۔ اور ایسے ہی چلتے چلتے میرا سفر تمام ہوا جب میری زیست کی راہبر تُم مری ہمسر ہمدم ہمدرد اور غمگسار بنی اور تب بے اختیار یہ شعر زبان پر آ گیا کام اپنا تمام کر بیٹھے ہم کہاں پر قیام کر بیٹھے تم ملے گُل کھلے کے مصداق ہم دونوں محبت کی راہگزر پر بنا سوچے سمجھے چلنے لگے ۔۔ ایکدوسرے کے بنا ہم یوں ہوتے جیسے جل بنا مچھلی ۔۔۔ دن رات صبح شام ہر وقت بس محبت کی دھن میں چلے جا رہے تھے مست و مگن جئیے جا رہے تھے یہ سوچے بنا کہ “ہر تعلق کی عمر ہوتی ہے انسانوں کی طرح رشتے بھی غلط فہمیوں کی وبا پھیلتے ہی بیمار ہوتے ہیں اور پھر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔۔۔” وقت کہاں کیسے گزرا ۔۔چند سالوں کی رفاقت سو صدیوں جیسی تھی ۔ساتھ ہنسے ساتھ روۓ کتنے غموں دکھوں کے درد بے مایہ کو کم کیا ۔۔ زندگی کو ان سالوں میں جیسےصدیوں سا جیا ۔ مگر پھر وقت کا ستم ایسا چلا کہ سب پارہ پارہ ہو گیا ۔ ہماری محبت کو ہماری ہی نظر کھا گئی ۔ ہمارے ساتھ نبھانے کے وعدے قسمیں وقت کی آندھی کی نذر ہوۓ اور ہماری محبت اکھڑتی سانسوں کے ساتھ جدا ئی کے موڑ پر آن کھڑی ہو ئی ۔۔تم انا کے موڑ پر خاموشی سے چپ چاپ کھڑی تماشہ دیکھتی رہئ اور مجھے جدائی کا موڑ مڑنا پڑا ۔تمہاری صدا کی امید دل میں رکھ کر میں نے پلٹ کر تمہاری طرف دیکھا مگر تم نظریں پھیرے کھڑی رہیں ۔۔ جبکہ تم اچھی طرح جانتی تھی رابطوں کی دنیا میں تم مرا آخری رابطہ تھیں ۔بے قراری کی دہلیز پر عمر گزارنے والے دل کا قرار تھی ۔۔۔تیرگی کی دنیا میں تم مرے لئیے روشنی تھی۔۔ وقت کی دیوار پر رکھے عمر کے جلتے دئیے کی آخری لو تھی ۔۔۔۔ بندآنکھوں کی پلکوں کی باڑ کے پیچھے دکھائی دینے والا آخری چہرہ تھی۔ضابطوں کی دنیا میں تم ہی مرا آخری ضابطہ تھیں۔۔ جبر کو سہتے ہوۓ تم ہی مرے صبر کی آخری حد تھی ۔۔ نفرت بھری اس دنیا میں تم مری روح کی پہلی اور آخری محبت تھی ۔درد میں چین راحت جیسی دوا تھیں۔۔ رب کائنات کے سامنے سجدے میں جھکے سر اور اٹھے ہاتھوں کی آخری دُعا تھی۔جسم کی حد سے پرے زندگی اور موت کی سرحد پہ ملنے والی روح کی ازلی روحانی ساتھی تھیں۔۔۔مگر ۔۔ تم سمجھ نہیں پائیں جان نہیں پائی جاننتی بھی کیسے کہ تم جسم کو ماننے والی روح سے آشنا کیسے ہوتی ظاہریت کی آنکھ باطن میں چھپی روح کو دیکھ نہیں سکتی۔۔۔تم سب جان کر بھی کچھ سمجھ نہ پائیں تم کبھی جان نہ پایئ کہ تم میرے لئیے دل کے نم کاغذ پر روح کی طرف سے لکھے جانے والااولیں و آخری مکتوب تھی محبت کے لفظوں میں ڈھلا دل کا لہجہ اور نفیس روح کا اسلوب تھیںاور مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ اس دور جدید میں یہ اسلوب ترک ہو چکا ہے ۔۔اسلئیے وقت کی دیوار پر لمحوں کے قلم سے لکھی گئی ہماری کہانی ادھوری رہ گئی ۔۔پوری لکھی نہیں جا سکی اور ۔۔محبت انا کی دیوار کے پرلے پار سر ٹکرا کر گنبد بے در کی صدا بنکر گونجتی ہوئی آ خرکار خود ہی خاموش ہو گئی اور بے موت مر گئی ۔۔ اور اب گزرتے وقت کی آنکھیں دو زندہ انسانوں میں مردہ دل اور بے جان روحیں پڑی دیکھتی رہتی ہیں ۔۔ وقت کی دھول ان پر پڑتی رہتی ہے اور دشتِ یاد میں گزرتی زندگی ہی انکا مدفن بن گئی ہے۔۔خیر ۔۔اور اب تو تم سے ۔بس اتنی التجا ہے جب مرا جسم روح سے بے نیاز ہو جاۓ تو ان گزرے تین سالہ رفاقت کا حق یوں ادا کرنا کہ میری تدفین کے بعد جب مرے دنیا سے جانے کی خبر ملے تو میری لحد پر ضرور آنا ۔۔۔اور میری لحد کے سرہانے گلاب کے پودے لگا جانا تمہیں معلوم ہے ناں میرے پیارے آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کیے پسینے سے کھلنے والا گلاب اور اسکی کی خوشبو آقا صل اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے مجھے بہت پسند ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تمہارے ہاتھوں کے لمس سے آشنا ان سرخ گلاب کے پودوں سے اگتے گلابوں کی کلیوں اور پھولوں کی خوشبو سے میری قبر ہمیشہ مہکتی رہے ۔۔اور میں اُس کُنجِ گُل میں سکون سے قیامت تک سوتا رہوں ۔۔ہمیشہ خوش رہو اور جی بھر جئیو ۔۔ اللہ حافظ اُففف مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ میں زاروقطار کیوں رو رہی تھی ۔۔۔میں نے بے اختیار لفافے کو الٹا کر دیکھا کہ ایڈریس تو دیکھوں کس نام کس پتے پر یہ پوسٹ کرنا ہے ۔۔ میری آنکھوں کی بینائی آنسوؤں سے دھندلا نے لگی کیونکہ وہاں کوئی پتہ نہیں لکھا تھا لفافہ میرے ہاتھوں سے چھوٹ کر زمینُ پرگر چکا تھا ۔۔اور ۔اور میں سمجھ رہی تھی اس نے مجھے پہچانا نہیں تھا ۔۔آج میں اس کی قبر پہ گلاب کے پودے لگوا کر وہ خط وہیں رکھ آئی ہوں ۔۔۔
شاز ملک فرانس