23/02/2025 18:10

افسانہ انجام شرک تحریر ۔ محمداشرف

افسانہ

انجام شرک

تحریر ۔ محمداشرف

وجود کو منجمد کردینے والی سردیوں کی شام تھی ، تند و تیز ہوائیں بدن کو نوچ رہی تھیں اور اس پر چاند وہ بھی چودویں کا ، مکمل ، صاف ، واضح اور شفاف ، وقار چاند کو تھکنے میں اس درجہ منہمک تھا کہ اسے دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہ تھی ، نہ موسم ، نہ سردی ، اور نہ ہی سرد ہواؤں کا احساس ، اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے وہ اپنے محبوب کا عکس چودویں کے چاند میں بالکل واضح اور نمایاں دیکھ رہا ہو اور وہ اُس کے ساتھ چُپ کی زبان میں ڈیر ساری باتیں کررہا ہو وہ یادیں اور باتیں اُسے اِس سرد اور جما دینے والی سردی میں سورج کی گرم شعاعوں کی مانند حرارت دے رہی تھیں ۔

کیوں کہ وقار عشق کے ایک انتہائی تلخ و شیرین اور ناکام تجربے سے گزر چکا تھا ۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ یونیورسٹی میں اردو میں ماسٹرز کر رہا تھا جہاں پہلی بار اُس کی نگائیں عروج پر پڑیں ۔

گوری چٹی رنگت ، ہرنی جیسی پرکشش خوبصورت مخمور اور ایسی دلکش غزالی آنکھیں کہ پوری کائنات ان میں سما جائے ،

بمانندِ ماہ روشن چہرہ ، عنابی اور ابھرے ہوئے نشیلے اور رسیلے سے ہونٹ ، صراحی نما گردن خلاصہءِ کلام یہ کہ جیسے پروردہ ءِ خلق نے اُسے کافی وقت لیکر انتہائی فرصت میں بنایا ہو ، نہ اُس میں کسی شئے کی کمی اور نہ ہی کوئی نقص ، ہر عیب و سقم سے ماورا و منزہ اور مکمل طور پر پاک و پوتر۔

کمرہ جماعت کی یہ روایت تھی کہ لڑکیوں کو بزرگ نمازیوں کی مانند جنہیں پہلی صف میں بیٹھ کر ادائیگی صلوۃ کا پروانہ جاری ہو چکا ہو ، عروج بھی بعین ہمہ کمرہ جماعت کی پہلی قطار میں اپنی کرسی پر براجمان اپنے پاؤں پر پاؤں رکھے ، گود میں رجسٹر ، ایک ہاتھ رجسٹر پر اور دوسرے ہاتھ میں قلم تھامے وہ بھی ٹھوری پر بہترین انداز میں بے حس و حرکت بیٹھی پروفیسرخضر کے لیکچرر میں مکمل مستغرق ، ایسی ساکت بیٹھی ہوٸی جیسے وہ پکاسو کی بنائی ہوئی کوئی شاہکار پینٹگ ہو۔

وقار کا دل پڑھائی میں کم اور عروج پر مکمل طور پر آ چکا تھا ، اس تاکہ جھانکی میں پورے دو ماہ بیت گئے ، پَھر وقار کو اظہار الفت کا ایک بھی موقع میسر نہیں آیا ۔

بالآخر اس نے ایک دن ہمت باندھتے ہوئے فیصلہ کرہی لیا کہ وہ آج دل کی بات زبان پر لاکر ہی دم لے گا ۔

اگلے دن حسبِ معمول بریک کے بعد عروج کینٹین کی جانب جارہی تھی وقار جس طرح پانی ڈھلان کی جانب تیزی سے بہتا ہے عروج کے پیچھے دیوانہ وار چل پڑا ، عروج کینٹین پہنچنے ہی والی تھی کہ وقار نے ڈر اور خوف سے بھرپور اور سہمے لہجے میں اس کا نام پکارا

عروج !

پلیز ایک منٹ کے لیے رکھ جائیے !!!!!

عروج جوکہ ایک نہایت پارسا با حیاء ، ہفت و فروتنی کا پیکر تھی ، اس غیر مانوس اور نامحرم آواز کو سنتے ہی جیسے عروج کے پاؤں کے نیچے سے زمین سِرَک گئی ، پلٹ کر دیکھا تو وقار اکھڑی ہوئی سانسوں کے ساتھ کھڑا نظریں جھکائے جیسے کوئی اپنے مرشد کے سامنے بچا ہوا ہو ، کھڑا تھا ۔

عروج نے ہمت بھاندتے اور تھمی ہوئی سانسیں بحال کرتے وقار کی جانب نظریں جھکاتے ہوئے گھبرا کر اس سے مخاطب ہو کر کہا

جی فرمائیے !

وقار ۔ اگر ممکن ہو تو کیا میں آپ کا کچھ قیمتی وقت لینے کی جسارت کر سکتا ہوں ؟

(وقار اردو کا طالب علم تو تھا ہی ، مگر اسے شاعری اور ادب پر بھی خاصی دسترس حاصل تھی اور گفتگو میں بھی اکثر ثقیل الفاظ استعمال میں لاتا تاکہ وہ سب میں ممتاز رہے)

جی کہیے !!! سن رہی ہوں !

وقار۔ جی اگر طبع نازک پے باعثِ بارِ گِراں کا موجب نہ ہو تو کیا ہم بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں ؟

عروج کو وقار کا انکساری سے بھرپور شریفانہ و عاجزانہ انداز بے حد پسند آیا ، چہ جائیکہ وہ پہلے اس انداز میں کھبی کسی سے بھی ہمکلام نہیں ہوئی تھی ،

ہنستی ہوئی تفنن سے بھرپور لہجے میں بولی

اکیسویں صدی کا غالب !

سبحان اللہ کیا اندازِبیان ہے جناب کا !!

وقار کا انداز تکلم الفاظ کا چناؤ لہجے میں ٹہراؤ آواز میں گرج اس قدر پر تاثیر ثابت ہوا کہ عروج میں انکار کی ہمت ہی باقی نہ رہی۔

عروج ۔ جی تو چلیئے چلیئے جناب ! آپ کی بات بھی سن ہی لیتے ہیں کہ آنجناب کیا ارشاد فرماتے ہیں !!

دونوں کینٹین کے پیچھے کرسیوں کو آمنے سامنے رکھ کر بیٹھ گئے ۔

جی تو فرمائیے غالبِ صغرا ! کیا کہنا چاہتے ہیں جناب اِس ادنی سی کنیز سے ؟

اور ساتھ ہی عروج نے وقار پر پہلا سوال داغ دیا

رکھیئے رکھیئے !!!

پہلے یہ تو بتائیے کہ کیا مشاغل ہیں آنجناب کے؟

عروج صاحبہ !!!

وقار ٹھنڈی آہ بھرتے اور سانسوں کوبحال کرتے ہوئے

جی ادب کا بے ادب ہوں اور اردو ادب میں آ دب گیا ہوں !

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا ارے واہ خوب گزرے گی جب ۔۔۔۔

وقار عروج کے مصرعے کو مکمل کرتے ہوئے بولے ۔۔۔

مل بیٹھیں گے دیوانے دو

واہ کیا کہنے جناب وقار صاحب ! آپ تو ماشاءاللہ کافی دلچسپ اور با ذوق انسان نکلے !!

ایک ملاقات میں دونوں کُھل بھی گئے اور ساتھ ہی کِھل بھی گئے ۔

اب تو ملاقاتیں روز کا معمول بن گئیں ، بلکہ وقت کے ساتھ اِس ساتھ نے آتشِ عشق کا روپ دھار لیا ، یہاں تک کہ ان دونوں کو یہ احساس ہونے لگا گویا کہ ربِ کریم نے انہیں ایک دوسرے کے لیئے ہی خلق کیا ہو ۔

وقت گزرتا گیا اور کورس بھی اختتام کو پہنچا امتحان بھی ہوگئے اور نتیجہ بھی نکل آیا ۔

وقار نے میدان مارلیا اور عروج نے بھی امتیازی نمبروں سے کامیابی سمیٹ لی ۔

یونیورسٹی سے رخصتی کے وقت دونوں اشکبارتھے مگر اس کے ساتھ ُپراُمید بھی ۔

تھوڑا عرصہ بھی گزر نہیں پایا تھا کہ وقار نے ایک سرکاری اور کلیدی عہدے پر اپنی زمہ داریاں سنبھال لیں ۔

وقار کے گھروالوں کو وقار اور عروج کے یونیورسٹی کے معاشقے کا بخوبی علم تھا چنانچہ وقار کو اعتماد میں لیئے بغیر ہی ایک دن وہ اچانک عروج کے گھر اس کا رشتہ مانگنے کے لیئے پہنچ گئے ۔

کیوں کہ لڑکا برسرِ روز گار ، سرکاری آفسر اور وہ بھی ایک کلیدی عہدے پر فائز ، انکار کی تو کوئی صورت ہی نہیں بنتی تھی اوپر سے وہ دونوں ایک دوسرے کو بے انتہا پسندکرتے تھے اور ایک دوسرے کے مزاج سے بھی بخوبی شناسا تھے۔

اس طرح دونوں کی شادی بخیر وعافیت اپنے انجام کو پہنچی ۔

دونوں ہنسی خوشی زندگی کے ایاِمِ شب و روز بسر کرنے لگے۔

شادی کو تقریباً دو سال کا عرصہ بھی نہیں گزر پایا تھا کہ ایک دن اچانک عروج کو وقار کے سامنے تواتر کے ساتھ اُلٹیاں آنی شروع ہوگئیں ،

وقار بے چینی کے عالم میں گھبرا کر عروج کو قریبی مگر ایک ماہر لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا ۔

طبی معائنے کے بعد لیڈی ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ تجویز فرما دیئے ، ٹیسٹ مکمل ہونے کے بعد جب ان کا نتیجہ لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کے سامنے آیا تو ڈاکٹر صاحبہ نے وقار سے مٹھائی طلب فرماتے ہوئے اُسے باپ بننے کی خوشخبری سنا دی ۔

وقار کی آنکھوں سے مارے خوشی کے آنسو چھلک پڑے ۔

دونوں میاں بیوی وہاں سے گھر کی جانب پلٹے ،

وقار کے ہاتھ میں عروج کے طبی ٹیسٹ کا نتیجہ ، آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر ایک مصنوعی مسکان واضح تھی دونوں میاں بیوی گھر میں داخل ہوئے ، گھر میں قدم رکھتے ہی وقار نے عروج کے طبی ٹیسٹ کے نتیجے کے کاغذات پھاڑ کر فضاء میں اُُچھال دیئے اور ساتھ ہی روتے ہوئے اور درد بھرے لہجے میں عروج کو تین طلاقیں دے کر اس کے باپ کے گھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے رخصت کر دیا ۔

کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اس میں باپ بننے کی صلاحیت بلکل بھی نہیں ، شادی کے بعدعروج بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھی ۔

وقار کو صرف اسی بات کا دکھ اور انتہائی افسوس تھا کہ مالک مکان ہونے کے باوجود وہ اپنے مکان کی چوکیدار ی کا فرض ادا نہیں کر پایا ۔

شرک ایک جرمِ عظیم ہے

اور مشرک پر تو پروردگار بھی اپنے فضل و رحمت کا سایہ نہیں فرماتا ، میں تو ٹہرا اس کا ایک ادنی سا فقیر ، شرک و بھی اپنے روزق میں بلا میں یہ کیسے برداشت کرنے کا متعمل ہوسکتا تھا

سیانے کہتے ہیں کہ

"مشرک کی یہی سزا ہے کہ اسے نہ صرف اپنی نظر التفات و مرحمت ، مہروالفت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے دور کردیا جائے بلکہ دل و دماغ سے بھی اکھاڑ پھینک دیا جائے "

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین