23/02/2025 18:10

افسانہ اگلے جنم مجھے بیٹی ہی کیجیو۔۔۔۔

افسانہ
اگلے جنم مجھے بیٹی ہی کیجیو۔۔۔۔
تحریر مہوش اشرف

چار رکنی ڈاکٹرز بورڈ سر جوڑے بیٹھا تھا اور پیشے نظر شاہدہ بی بی کی رپورٹ تھیں پر کسی طور بہتری کی کوئی راہ نکالتی نظر نہ آتی تھی۔ سرجن ڈاکٹر شاہد وقار ملک کے مایہ ناز نیورو سرجن تھے مگر انہوں نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے معذرت کر لی۔
”ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں پر شاہدہ بی بی کا زخم بری طرح خراب ہوچکا سی ٹی اسکین کچھ اچھی خبر نہیں دے رہا۔ برین کےاُپری اور نچلے حصے پر اُس وقت جو خون جمع ہوگیا تھا، وہ بعد میں ٹیومر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ میڈیکل سائنس میں اسے پیراسیجیٹل اور سیریبیلر ٹیومر کہتے ہیں۔ عام زبان یہ کینسر کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اسٹیج بھی لاسٹ ہے نا تھراپی ہوسکتی ہے نا ہی سرجری۔ اب ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے باقی آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں وہ ہی کوئی معجزہ کرے گا انشاءاللہ۔“ ڈاکٹر طارق نے سہیل کو رپورٹ واپس دیتے ہوئے کہا۔
سہیل کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا سوائے اِس کے کہ اُس کی ماں کا زخم ناسور بن گیا ہے۔ اس نے اپنا بکھرا وجود سمیٹا ایک قیامت گزر چکی تھی جبکہ ابھی ایک قیامت باقی تھی۔ بستر مرگ پر پڑی ماں کا سامنا کرنا ابھی باقی تھا۔ وہ جیسے تیسے ڈاکٹر کے کمرے سے باہر آیا اور وارڈ کی جانب چلا جہاں اس کی ماں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی۔
شاہدہ نے نیم دراز آنکھیں کھولیں اور سہیل کو دیکھا اُس کا اترا چہرہ شاہدہ نے پڑھ لیا تھا ماں جو تھی بیٹے کے چہرے کے رنگ خوب جانتی تھی۔
”بیٹا سہیل ! نہ بیٹا رونا نہیں، میرے لیے دعا کرنا، کلام الہی پڑھنا بیٹا اور کسی کا دل نہیں دکھانا بیٹا کسی کا حق کھانا غلط ہے گناہ ہے۔“
”امی آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کی رپورٹ دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں گا۔“ سہیل نے اپنے آنسو چھپاتے ہوئے کہا۔
”سہیل! بڑے ماموں کو بلا لو مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔“شاہدہ نے نحیف سی آواز میں کہا۔
سہیل پر نم آنکھوں سے اظہر ماموں کو فون ملانے مڑ گیا اور ادھر شاہدہ نے آنکھیں موندی چپ چاپ ماضی کو وادی میں اتر گئی۔
ہم کوہاٹ کے رہنے والے تھے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اظہر بھیا ، میں عابدہ اور زاہدہ ہم چار بہن بھائی امی ابا اور دادی یہ کل کائنات تھی ہماری۔
ہم بیٹیوں کو گھر سے نکلے یا اسکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔ دادا ابا کو عزت پیاری تھی اور ان کی وفات کے بعد یہ بیڑا دادی اماں نے سنبھال رکھا تھا۔ ہم کس سے ملتے ہیں۔ کون گھر آتا ہے۔ امی نے کہیں کسی سے کوئی بات تو نہیں کی۔ دن بھر کی یہ ساری روداد دادی اماں، ابا کے گوش گزار کرتی تھیں اور ذرا سی بھول چوک پر دادی اور ابا مل کر امی کو مارتے تھے۔ اظہر بھیا سب سے بڑے تھے۔ وہ امی اور ہماری ڈھال تھے ان کے ہوتے گھر میں سکون تھا۔ ان ہی کی وجہ سے ہمیں گڑیا کی شادی کی اجازت بھی مل گئی تھی ۔ مڈل تک تو اسکول گاؤں کے نزدیک ہی تھا پر مزید تعلیم کے لئے انہیں شہر جانا پڑا اور یہاں ہم سب بے آسرا ہوگئے اور میری زندگی برباد ہوگئی۔
ہم سب نے روتے ہوئے بھیا کو رخصت کیا تو دادی اور ابا ناراض ہونے لگے دعا تو بھیا کو خیر سے جائے خیر سے آئے ہم سب نے دعا دی۔ بھیا کے جانے کے بعد ہم نے گڑیا کی شادی کی تیاری شروع کر دی جو ایک ہفتے سے بھیا کے ساتھ مل کر رہے تھے گھر سجایا مہندی لگائی اچھے کپڑے پہننے اور آج تو ابا نے امی کو بھی اچھا کھانا بنانے کے ساتھ تیار ہونے کا کہا تھا بھیا کو رخصت کر کے ابا امی کو لے کر دادی کے کمرے میں چلے گئے
”کہاں چھوٹی ہے، خیر سے پندرہ میں لگ جائے گی اب کی شبِ برات میں۔“ دادی کے کمرے سے آواز آئی۔
ابو امی کو لے کر تھوڑی دیر پہلے ہی دادی کے کمرے میں داخل ہوئے تھے اور دروازہ اندر سے بند کر لیا گیا تھا۔ کسی کو کمرے کی طرف جانے کی اجازت نہیں تھی۔
”شاہدہ آپی گڑیا کا لال ڈوپٹہ کہاں گیا۔“زاہدہ نے رونی صورت بناتے ہوئے کہا۔
”ارے یہ مسہری پر تو پڑا ہے۔ روتی کیوں ہو؟ کچھ آنسو سنبھال کر رکھو رخصتی کے لیے بس عابدہ اپنے گڈے کی برات لے کر آتی ہی ہوگی۔“شاہدہ نے زاہدہ کو چھیڑا
”آپی روز ملنے چلیں گے اور مٹھائیاں کھا کر آیا کریں گے دولہا بھائی سے۔“زاہدہ نے نم آنکھوں سے ہنستے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر میں دادی کے کمرے کا دروازہ کھول دیا گیا۔
دادی نے بڑے چاؤ سے مجھے سرخ ڈوپٹہ اڑا دیا اور امی رونے لگی۔
کچھ سمجھ نہیں آریا تھا ایک افراتفری تھی سارے گھر میں عابدہ تو گڈے کی بارات لانے سے منع کر دیا گیا تھا۔
امی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میرا ماتھا چوما
” کریم داد اچھا لڑکا ہے۔ تجھے خوش رکھے گا۔ اللہ تیرے نصیب اچھے کرے میری بیٹی۔“
”چچا کریم داد! امی نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
”نہ بیٹا نہ! چچا نہ کہنا اب، گناہ ہوتا ہے شام کو تیری رخصتی ہے۔ امی نے مجھے گلے لگا لیا۔
”پر امی رخصتی تو گڑیا کی تھی آج۔“ میں نے پوچھا پر امی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

پچیس سالہ کریم داد خوبرو جوان تھا۔ گندمی رنگت ، دراز قامت کریم داد زمیندار کی زمینوں پر کھیتی باڑی کا کام کیا کرتا تھا۔ وہ ابا کا دور کا کزن تھا اکثر ابا کی مدد کر دیا کرتا تھا۔ ابا نے اظہر بھیا کو شہر پڑھنے بھیجا تھا اور قرضے کے طور پر پچاس ہزار روپے لیے تھے۔ جس کی معافی کے طور پر آج میں بیاہی جارہی تھی ۔
کریم داد برات لے آیا اور میں رخصت ہو کر اس کے گھر آ گئی۔
میری ساس نے منہ دکھائی میں مجھے جو پہلا تحفہ دیا وہ دانتری تھی، ساتھ اُس نے بتایا کہ فجر سے پہلے ناشتہ دینا ہے اور نماز کے بعد بیلوں کو کھیت کے لیے تیار کرنا ہے چونکہ کٹائی کا موسم ہے تو عابدہ اور امی کے ساتھ آج سے میں نے بھی کٹائی پر جانا ہے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ یہ کیسا تحفہ ہے، کریم داد کہیں نہیں تھا۔ اس رات کو گھر نہیں لوٹا۔ اگلی صبح ساس کو ناشتہ دینے کے بعد میں کھیتوں میں جانے کو تیار ہوگئی۔
امی اور عابدہ مجھے لینے آگئیں تو میں نے امی سے سوال کیا:
”امی یہ کیسی شادی ہے نہ مٹھائی نہ گانے مجھے واپس گھر جانا ہے۔ دیکھو نا امی یہ دنتری، میں کیا کروں گی اس کا مجھے تو گھر میں تو ہاتھ میں لینے سے منع کرتی تھی، مجھے یہ کام نہیں کرنا امی مجھے بھی اظہر بھیا جیسا پڑھنا ہے۔“
”چپ پگلی کسی نے سن لیا تو جان سے جائے گی اب تو عزت ہے کریم داد کی ایسی باتیں پھر نہ کرنا، جیسے وہ اور اس کی ماں کہے ویسے کرنا اپنے امی ابو کی لاج رکھنا بیٹا۔“ امی نے قدرے مضطرب ہو کر کہا تو میں نے بھی وعدہ کر لیا کہ اب سے کچھ نہیں کہوں گی اپنے امی ابو کی لاج رکھوں گی۔
کریم داد زمینوں پر ہی موجود تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر دنتری کا استعمال سکھایا۔ یہ پہلی اور آخری بار تھا جب کریم داد نے مجھے پیار سے چھوا تھا، اس کے بعد تو زندگی کی کشتی کسی طوفان کی نذر ہوگئی تھی۔ سارا سارا دن گھر اور کھیت کے کام اور رات کو نشے میں دھت کریم داد کی ننگی گندی گالیاں اور مار۔ چار چار دن وہ گھر نہیں آتا تھا۔ شراب کی لت سے گھر کی برکت جاتی رہی پہلے بیل بکے اور پھر گھر کا سامان، گھر میں روٹی کے لا لے پڑ گئے۔ غربت ، میکے جانے پر پابندی اور ملنے والیوں سے قطع تعلقی نے زندگی اور جہنم بنا رکھی تھی اگر کبھی کسی سے بات کر لیتی تو ساس الگ ایک کی چار کریم داد سے لگاتی پھر وہ گرم سگریٹ سے میرا جسم جلاتا۔
ابا نے پلٹ کر نہیں پوچھا اور سال بعد اظہر بھیا آئے تو میری طرفداری کرنے پر انہیں چار سال پھر واپس نہ آنے کے لئے کراچی بھیج دیا گیا۔ اب کی بار خرچہ لینے سے بھیا نے انکار کر دیا تھا۔
میں بھیا کے سامنے بلکل نہیں روئی تھی پر اس کے پلٹ جانے کے بعد میں پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔
ایسے میں سہیل کے آنے کی خوشخبری نے زندگی میں کچھ سکون فراہم کیا اب میں اپنے آنے والے بچے کے ساتھ زندگی جینے لگی تھی۔
امی زمین پر کبھی روٹی کھلا دیتیں اور ڈوپٹے کے پلو سے اپنے اور میرے آنسو صاف کرتی جاتیں۔ وہ بھی میری طرح بے بس تھیں اور اب میں سمجھنے لگی تھی کہ وہ بھی میری طرح زندگی جی رہی ہیں۔
ایسے میں میں ، شب و روز اپنے رب سے دعا کرتی کہ الہی مجھے بیٹی نہ دینا اور اگر دینا تو نیک نصیب دینا۔
عابدہ کی شادی پر مجھے امی ابا کے ساتھ جب لینے آئیں تو میری ساس نے میری طبعیت کا بہانہ کیا۔
”شاہدہ کی ماں! تم تو خود بچوں والی ہو جانتی ہو شادی کے گھر میں احتیاط نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ تم تو لگی ہوگی مہمان داری میں اور وہاں میری بہو کی خدمت کون کرے گا‍۔ میرا ایک ہی ایک بیٹا ہے اور اس کے گھر پہلی خوشی ہے۔ ہم اتنی بڑی لاپرواہی نہیں کر سکتے تمہیں بھلا لگے یا برا ہماری بہو تمہاری بیٹی کی شادی میں نہیں جائے گی۔ کریم داد شہر گیا ہے اور میںاس کی خدمت میں لگی ہوں تو ہماری طرف سے بھی معذرت ہی سمجھوں۔ “
امی ابا نامراد واپس پلٹ گئے اور ان کے جانے کے بعد میں خوب روئی کتنا دل تھا میرا جانے کا حسرتیں پالنا ہی اس دل کا واحد کام رہ گیا تھا۔
عابدہ کی شادی خالدہ خالہ کے بڑے بیٹے ظہیر بھیا سے ہوگئی اور وہ کراچی چلی گئی۔ مجھ سے بنا ملے میں نے اس کو دلہن بنا دیکھنا تھا کتنے شکوے کئے تھے اس رات اللہ سے۔ جب ہم امی کے گھر تھے تو دادی اور ابا سے چھپ کر ایک دوسرے کو لال ڈوپٹہ پہنا کر دلہن بنایا کرتے تھے کتنی پیاری لگتی تھی عابدہ میں خیالوں میں اسے رات بھر دلہن بناتی رہی۔
سہیل کی پیدائش پر گھر میں جشن کا سماں تھا پر ساتھ ہی دل چیر دینے والی خبر گھر آئی امی نے دروازے سے ہی کریم داد کو ڈرتے ڈرتے اطلاع دی کہ وہاں کراچی میں ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ظہیر بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ سب کراچی جا رہے ہیں۔
میری نظر میں نو بیاہتا عابدہ کی تصویر گھوم گئی مجھے پیدائش کی کمزوری تو تھی ہی ساتھ بہن کا غم میں بسر سے لگ گئی۔ کریم داد نے میرے میکے والوں کا داخلہ بھی یہ کہہ کر بند کر دیا کہ منحوس لوگ ہیں۔ اس کو چھلّے میں پڑی بیمار عورت سے کوئی غرض نہیں تھی سو اس نے کراچی کا رخ کیا۔ فصل تیار کھڑی تھی ، زمیندار نے کسی اور کو زمین کا ٹھیکہ دے دیا۔ روٹی کے آثار جاتے رہے ساس نے زمیندار کی حویلی کا رخ کیا وہاں اس کی زمیندارنی سے اچھی بنتی تھی تاکہ وہ گھر کچھ اناج لائے اور پوتے کی ماں صحت یاب ہوکر دوبارہ سے غلامی کرے۔ میں نے بہن کا غم غلط کیا اور ننھی جان سہیل کی طرف توجہ دی پیٹ بھر روٹی اور بیٹے کی صورت نے ہفتے بھر میں کھڑا کر دیا۔
اب میں نے دوبارہ سے وہی شب و روز محنت شروع کردی، دس دن کا اناج زمیندارنی سے مل گیا تھا جو ختم ہونے کو تھا ادھر کریم داد کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔
چار دن ہونے کو آئے گھر میں ایک وقت اناج کھاتی اور سارا دن کام کرتی میری ہمت جاتی رہی اور جب سہیل کو دودھ نہ اترا تو مجھے دانتری یاد آئی۔ یہ سسرال میں میری دوسری فصل کٹائی تھی۔ اب مجھے دانتری چلانی خوب آتی تھی۔ ساس سے اجازت لے کر میں نے زمینوں کا رخ کیا۔ پر بات کس سے کروں نہ اماں دکھائی دیں نہ ابا، ہاتھ میں دانتری لیے کھڑی سوچ ہی رہی تھی کہ چاچی عزیزہ امی کی پڑوسن میری جانب آتی دکھائی دی۔
”شاہدہ! تو ابھی تو تو چھلے میں ہے نہ صحت تو اچھی نہیں لگتی تیری کیوں آئی ہے ۔“
ہاتھ میں دنتری دیکھ اس نے مجھ سے سوال کیا اور ساتھ عجیب طریقے سے مجھے گلے لگا لیا جیسے پرسہ دے رہی ہو مجھے وحشت ہونے لگی ۔
”چاچی! اماں کہاں ہے؟“ میں نے پریشانی میں سوال کیا۔
بیٹا! دس روز پہلے کراچی سے واپسی پر وہ عابدہ کو ساتھ لا رہی تھی جبکہ تمہارا ابو یہ نہیں چاہتا تھا وہ ناراض ہوکر پہلی گاڑی میں گاؤں آگیا۔ پیچھے والی گاڑی پر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔ امی عابدہ زاہدہ سب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ “
میں چکرا گئی: ”دس روز ہوگئے کسی نے اطلاع نہیں دی اور اظہر بھیا میں نے روتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں بیٹا تمہارے ابا نے یہاں میتیں لانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہیں اظہر نے کراچی میں ہی تدفین کر دی۔“ چاچی عزیزہ نے جواب دیا
”ابا اور دادی؟ میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔
”تیرے ابا نے فقیر محمد کی بیٹی رخسانہ سے نکاح کر لیا اور گھر لے آیا۔“چاچی عزیزہ نے مزید بتایا‍۔
میں گھر واپس کیسے آئی میں نہیں جانتی میں گھر کے صحت میں بے ہوش ہو گئی۔ آنکھ کھلی تو کریم داد ہاتھ میں پانی کا گلاس لیے میرے منہ پر چھینٹے ڈال رہا تھا،مجھے گالیاں دے رہا تھا ساتھ اپنی ماں پر غصہ کر رہا تھا۔
میں جیسے تیسے اٹھ کر بیٹھی کریم داد سہارے سے مجھے کمرے میں لے آیا۔
” کیا میں مر گیا تھا جو تو گھر سے نکلی۔“کریم داد غصے سے پاگل ہوا جا رہا تھا پہلی بار اس نے میری حالت پر رحم کھایا اور ہاتھ نہیں اٹھایا۔
کریم داد شہر سے کچھ کھانے کو لایا تھا۔ مجھے بھی کھانے کو دیا۔ سہیل رو رہا تھا۔ معصوم کو دودھ کے چند قطرے ملے تو سو گیا۔ میں بھی نقاہت میں تھی نیند لگ گئی۔
زندگی ایسے ہی چلتی رہی وقت گزرتا رہا۔ اب مجھے ان سارے کاموں اور باتوں کی عادت ہوگئی تھی۔ شادی کے پانچ سالوں میں سہیل کے بعد اوپر تلے اللہ نے مجھے تین بیٹیاں بھی دیں۔ کہتے ہیں بیٹیوں کی مائیں سمجھدار ہوتی ہیں سو بیس سال کی عمر میں میں چالیس کی دکھائی دینے لگی۔ کریم داد نہ بدلا اور نہ اس کی ماں۔
ایک دن دروازے پر دستک ہوئی کریم داد وہیں کسی سے باتیں کرتا ہوا اُسے مہمان خانے میں اندر لے آیا۔
مجھے اور بچوں کو آواز دی سہیل دوڑ کر میرے پاس اپنی کھلونا گاڑی لے آیا۔ میں مہمان خانے تک آئی آواز جانی پہچانی تھی یہ تو اظہر بھیا کی آواز تھی میرے اندر کمرے میں داخل ہوگئی۔ بھیا کے گلے لگی تو امی عابدہ اور زاہدہ کا غم تازہ ہوگیا۔
”نہ پگلی روتے نہیں“ بھیا نے ساتھ بیٹھا لیا وہ بول رہا تھا تو لگ رہا تھا امی بول رہی ہیں۔
پانچ سال اظہر بھیا نے کراچی میں اکیلے محنت مشقت میں کاٹے ساتھ پڑھائی کرتے رہے اور خیر سے نوکری لگ گئی تھی وہ سب کے لیے کپڑے اور تحائف لائے تھے۔ یہ پہلی بار تھا جب میرے میکے سے کسی کو عزت دی گئی تھی۔ میں خوش تھی پر بھیا نے میرے گھر کا پانی بھی نہیں پیا اور رسم و رواج نبھا کر چلے گئے‍۔
بھیا نے ہمیں کراچی بلایا تھا بھیا کی شادی اچھے لوگوں میں ہو رہی تھی۔ کریم داد نے فون پر بھیا سے کراچی آنے کا وعدہ کر لیا تھا۔ میں بہت خوش تھی پر قسمت کو میری خوشی منظور نہ تھی کریم داد کی ماں بیمار ہوگئی اور ایسی بیمار پڑی کہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔
بھائی بھابھی میت میں آئے پر ہیں داد نے عزت نہ دی الٹا بھابھی کو منحوس قرار دے دیا۔ بھیا خاموشی سے واپس چلے گئے۔
میں چاہتی تھی کہ سہیل اسکول جائے چار سالہ سہیل ذہین بھی تھا۔ چاچی عزیزہ کو بیٹا مڈل اسکول کا ٹیچر تھا۔ میں نے کریم داد کا اچھا موڈ دیکھ کر کان میں بات ڈال دی۔ کریم داد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کا اپنا نشہ پانی مسلہ تھا ساتھ ہم پانچ لوگوں کی روٹی مشکل تھی۔ میری مشکلات میں ساس کے انتقال کے بعد مزید اضافہ ہوتا گیا پہلے تو وہ چند روز کا راشن زمنیدارنی سے لے آیا کرتی تھی پر اب اس کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ کریم داد کراچی گیا تھا پیچھے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا ساس کی فوتگی پر بھیا نے جو رقم دی تھی وہ ختم پر تھی۔ میں نے دنتری نکالی، بچے لیے اور زمینوں پر چل دی۔ میں چاچی عزیزہ سے سہیل کی بات کر رہی تھی کہ آگ بگولہ کریم داد اللہ جانے کہاں سے آگیا اور کلہاڑی کا ایک وار میرے سر پر کیا، میرے سر سے خون بہہ نکلا اور میں وہیں کھیتوں میں ڈھیر ہوگئی۔
آنکھ کھلی تو چاچی عزیزہ نے اپنے ڈوپٹے سے میرا سر بندھ رکھا تھا اور کریم داد پاس کھڑا تھا۔میرے چاروں جانب بچے تھے ۔
کریم داد نے میرے باہر نکلنے کو مدعہ بنایا۔ وہیں زمینوں پر مجھے طلاق دے دی گئی۔
چاچی عزیزہ نے فون کر کے بھیا کو اطلاع دی اور یوں ہم سب کراچی آ گئے۔
بھیا بھابھی اچھے لوگ تھے زندگی گزرتی رہی میرے بچے پڑھائے انہوں نے بیٹیوں کی شادیاں کی سہیل نوکری کر رہا تھا اور میں سکون سے مر سکتی تھی۔
”شاہدہ! شاہدہ! آنکھیں کھولو میری بہن۔“اظہر بھیا کی آواز کان سے ٹکرائی تو شاہدہ ماضی سے حال میں آ کھڑی ہوئی۔
”بھیا میں تمہاری شکر گزار ہوں ۔ میرے بعد میری بیٹیوں کی خبر گیری رکھنا، جیسے میری رکھتے تھے اور روزِ محشر گواہی دینا کہ میں نے امی ابا کی لاج رکھی تھی۔“یہ کہہ کر شاہدہ ہمیشہ کے لیے پر سکون نیند سو گئ۔

مہوش اشرف

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین