افسانہ صلہ
تحریر مہوش اشرف
رضیہ کی شادی کو سات سال ہونے کو آئے تھے۔ وہ شادی کے بعد اپنے خاوند اللہ بخش کے ساتھ اندرون سندھ سےکراچی آگئی تھی اور مختلف گھروں میں جھاڑو برتن کرتی تھی۔ اس کا شوہر کرائے کا رکشہ چلتا تھا۔ ان کے چمن میں دو پیارے پیارے پھول ارمان اور زمان کھلے تھے۔ کراچی میں انہوں نے ایک کمرے کا کرائے کا مکان لے رکھا تھا۔ کھینچ تان کر گزر بسر ہو ہی جاتی تھی پر رضیہ بڑے دل کی سخی اور صابر عورت تھی۔
چارپائی پر بیٹھا اللہ بخش سگریٹ کے کش پر کش لگا رہا تھا۔ تھکی ماندی رضیہ اس کے برابر میں بیٹھ گئی۔
"کیا آج بھی مالک نے رشکا نہیں نکالا سائیں؟“ رضیہ نے پریشانی میں سوال کیا جو ابھی ابھی بنگلے کا کام نمٹا کر آئی تھی اور روزانہ کی طرح تھکن سے چور تھی۔
”نہیں! مالک کہتا ہے انجن کھلے گا۔ اب کی باری بڑا مسئلہ آ گیا ہے۔ تھوڑا وقت لگے گا مالک کو، اس کے پلے بھی پیسے نہیں کہ فورا فورا رشکا گیراج دے آئے۔“
”پر سائیں! جب تک ہمارا کیا بنے گا۔“ رضیہ نے ایک اور سوال داغ دیا۔
”اللہ حوالے، اللہ سائیں ہی بڑا سائیں ہے۔ وہی کاٹے گا دن مشکل کے۔ بس تو اپنی خدمتِ خلق پر ذرا ہاتھ ہولا رکھنا۔“ اللہ بخش نے ختم ہوتی سگریٹ پیر سے کچلتے ہوئے کہا۔
اتنے میں ولی محمد اور عذرا اپنے دو بچوں کے ساتھ ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ لئے اللہ بخش اور رضیہ کی جانب آتے دکھائی دیئے۔
”لے آ گئے مفت کی روٹیاں توڑنے والے تیرے ماں جائے۔“ اللہ بخش نےان کی جانب دیکھتے ہوئے ناگواری سے کہا۔
”السلام علیکم بھائی اللہ بخش!“ ولی نے بڑھ کر گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔
”وعلیکم! اللہ بخش نے سرد مہری سے جواب دیا۔
”وے عذرا! اندر آ۔“ رضیہ نے گھر کا دروازہ کھولا ۔ بچے اور عذرا رضیہ کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہوگئے جہاں رضیہ کے دونوں بیٹے سو رہے تھے.۔
”اری یہ تکلف کیسا رے۔“رضیہ نےعذرا سے مٹھائی کا ڈبہ ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔
”باجی! رضیہ خیر سے آج ہم نے اپنا گھر کرائے پر لے لیا ہے۔ مالک مکان کو ٹوکن دیتے آ رہے ہیں وہ کہتا ہے سامان لے آئیں ابھی۔ تیری بہت مہربانی یہاں کراچی آ کر تو بھائی بھائی کو نہیں پہچانتا، تو نے تو گاؤں کی پہچان نبھا دی۔قسم سے بڑا سہارا دیا تو نے۔بھائی اللہ بخش کی باتیں بھی سنی تو نے ہماری وجہ سے ہم بہت شرمندہ ہیں۔ تیری اور اللہ بخش بھائی کی بڑی مہربانی، ہمارا مشکل وقت کاٹ دیا۔ اللہ تجھے خوش رکھے۔”
عذرا کا شکریہ ادا کرتے کرتے منہ سوکھ رہا تھا اور رضیہ شرم سے پانی پانی ہوئی جا رہی تھی۔
”باجی رضیہ! اب ہمیں اجازت دو بڑی مہربانی جی آپ کی رہائش دی روزگار لگا دیا۔ بنگلے والی باجی بھی بہت اللہ والی ہے جی، سب تیری وجہ سے۔“ عذرا نے سامان سمٹتے ہوتے کہا۔
بچے جو باتوں کی آواز سے جاگ گئے تھے پاس رکھا مٹھائی کا ڈبہ اٹھا کر باورچی خانے میں لے آئے جہاں رضیہ چائے بنا رہی تھی۔
”لے زمان اپنے ابا اور چاچا کو چائے اور یہ مٹھائی دے آ۔“ رضیہ نے چائے کی ٹرے زمان کو تھماتے ہوئے کہا۔
”بھائی بڑا خرچہ کردیا خیر تو ہے۔“ اللہ بخش نے ولی سے طنزیہ انداز میں کہا۔
”جی بھائی جی دراصل اللہ کے فضل سے اور آپ کی مہربانی سے تین ماہ میں اتنا سہارا ہوگیا کہ روزگار کے ساتھ اتنی بچت ہوگئی کہ رہائش کا مسئلہ بھی حل ہوگیا آج، یہ اگلی گلی میں فضل چچا کو گھر مل گیا کرائے پر جی۔“
”واہ ولی یہ تو بہت اچھا ہو گیا۔“اللہ بخش کو جیسے ہی یہ پتہ چلا کہ یہ بن بلائے مہمان اب جانے کو ہیں تو اللہ بخش کا سارا غصہ جاتا رہا۔
”اچھا باجی رضیہ کل رات کا کھانا آپ سب ہمارے ساتھ کھانا۔“ جاتے جاتے عذرا نے سب کو دعوت دی۔“ اللہ بخش نے موقع غنیمت جانا اور فورا حامی بھر لی۔
رضیہ کے بچوں کی عذرا کے بچوں کے ساتھ اچھی دوستی ہوگئی تھی ان کو جاتا دیکھ وہ اداس ہوگئے۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا اور دو سال گزر گئے۔
رضیہ کے دونوں بیٹے گیراج پر موٹر مکینک کا کام سیکھ رہے تھے۔ اللہ بخش نے اپنا رکشہ لے لیا تھا اور رضیہ بنگلے والی باجی کے گھر ملازموں کی ہیڈ ہوگئی تھی۔ اچھی گزر بسر ہورہی تھی کہ ایک دن…..
”آ جا آ جا اندر آ جا۔“
رضیہ نے زرینہ کو اپنے گھر میں بڑے پرتپاک طریقے سے خوش آمدید کہا۔
اللہ بخش جو پہلے ہی سے گھر میں بیٹھا سگریٹ کے کش لگا رہا تھا غصے سے پہلے رضیہ کو پھر زرینہ کو گھورتا ہے اور گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔
”رضیہ اوووو رضیہ۔“ اللہ بخش کے آواز دینے پر رضیہ بھی گھر باہر نکل گئی پاس پڑی چارپائی پر اللہ بخش اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
”اااااےےےے کیا اب کس کی ہمدردی۔“ اللہ بخش نے غصے میں سوال کیا۔
”نہ کر وہ تجھے بتایا تھا نا گاؤں سے چچا کریم داد کی بیٹی اب ادھر کراچی میں ہی کام کرے گی۔ چچا تو اب رہا نہیں، اب جو کچھ بھی ہیں ہم ہی ہیں اس کے۔“ رضیہ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہاں تو بڑی آئی بلقیس ایدھی یہ ایک اور یتم مسکین کو اٹھا لائی۔“
” بس کچھ ہی دنوں کی بات ہے اللہ نے چاہا تو جلد ہی کسی بنگلے پر کام مل جائے گا اسے بھی۔“ میں بات کروں گی اپنی بنگلے والی باجی سے بس پھر یہ وہاں ہی رہے گی۔ نہ کر رہنے دے چند دنوں کی ہی بات ہے رب ناراض ہوتا ہے اور تو فکر نہ کر اس کی روٹی رب کے حوالے ہے، وہی انتظام کرے گا۔“رضیہ نے اللہ بخش کی منت کرتے ہوئے کہا۔
”نہ رضیہ میری ماسٹرنی نہ بن بس اس کو کل ہی فارغ کر اپنا خرچہ ہی اوکھا ہے۔ میرا رکشہ خراب پڑا ہے۔ میں گھر بیٹھا ہوں. ارمان، زمان اور تیرا میرا خرچہ پہلے ہی مشکل ہے مجھ سے کوئی امید نہ رکھنا۔“اللہ بخش نے دو ٹوک جواب دے دیا۔ زرینہ یہ سب سنتے ہوئے سہم گئی کہنے لگی: ”باجی میں کل ہی کام پر جاؤں گی ۔“
”زرینہ پریشان نہ ہو سویرے ساتھ چلنا رب اچھا کرے گا۔“ رضیہ نے زرینہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
صبح ہوتے ہی دونوں کام پر نکل پڑیں چند ہی مہینوں میں رضیہ نے زرینہ کو کام کرنے کے طور طریقے سیکھا دیئے۔ واشنگ مشین کیسے لگے گی ، ڈرین کیسے کریں گے، موب کیسے کرتے ہیں ، مائیکرویف کیسے استعمال ہوتا ہے، کافی کیسے بناتے ہیں،بات چیت کس طرح کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ…
زرینہ چونکہ اکیلی تھی۔ اس لئے کام ملنے کے بعد بھی زرینہ سے الگ رہائش کا مطالبہ نہ کیا۔ رضیہ کو زرینہ کی صورت میں ایک دوست مل گئی. شب و روز کیسے گزر رہے تھے پتہ ہی نہیں چل رہا تھا. رضیہ دن بھر کام کرتی اور رات کو تھک ہار کر سو جاتی. دوسری جانب اللہ بخش کی نظر میں زرینہ کا رنگ روپ کم عمری گھر کر رہی تھی جس کا زرینہ نے بھی مثبت جواب دیا۔ اندر ہی اندر اللہ بخش اور زرینہ جب موقع ملتا ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے اب تو اکثر اللہ بخش زرینہ کو اپنی موٹرسائیکل پر بھی گھمانے لگا تھا۔ اللہ بخش کا زرینہ سے بے تکلف ہونا اور زرینہ کا لہرا لہرا کر اللہ بخش کے آگے پیچھے ہونا، رضیہ کو کچھ بھا نہیں رہا تھا۔ رضیہ نے کئی بار زرینہ کو گھر سے نکالنے کا سوچا پر اللہ بخش آڑ بن جاتا۔
” اری نہ بس تیرے ذہن کا گند ہے میں اور وہ اررری نہ قسم سے تیری قسم ایسی کوئی بات نہیں، سن رضیہ تیری سنگت اچھی ہے زرینہ سے کیوں خراب کرتی ہے۔“اللہ بخش اس کو تسلیاں دیتا۔
زرینہ کو کراچی آئے سال ہو گیا تھا اس کے تو رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے تھے اچھے کپڑوں میک اپ اور پرفیوم سے وہ اللہ بخش کو مزید اپنا دیوانہ بنا رہی تھی۔
ایک دن کام سے واپسی پر رضیہ نے زرینہ اور اللہ بخش کو حلیم کی دوکان پر حلیم کھاتے دیکھا تو دوکان میں داخل ہوگئی۔
”اے اے اللہ بخش تو اس بے غیرت یہاں بیٹھا عیاشی کر رہا ہے کل ارمان کو دوا دلانے کے لئے تیرے پاس پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ ساری رات میرا بچہ بخار میں جلتا رہا۔“دوکان میں داخل ہوتے ہی رضیہ بے شور ڈال دیا۔
زرینہ اور اللہ بخش دونوں ہی یوں پکڑے جانے پر سٹپٹا سے گئے۔
”ہاں نہیں ہے میرے پاس تم منحوسوں کے لئے کچھ بھی ہر وقت پیسہ پیسہ۔“
چل گھر جا یہاں سے اللہ بخش نے رضیہ کو دھکا دیتے ہوئے ہوئے کہا۔
”اسے تو میں بتاتی ہوں بے غیرت نمک حرام رہنے کو جگہ دی کام دلایا اپنا پیٹ کاٹ کر روٹی کھلائی اور یہ میرے ہی شوہر پر ڈورے ڈال رہی ہے۔“رضیہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ زرینہ کو چوٹی سے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔
” اوووو اوووو چھوڑ اسے چھوڑ میں کہتا ہوں چھوڑ۔“ اللہ بخش، رضیہ اور زرینہ کو الگ کرتا ہوا دوکان سے باہر آگیا۔
ایک ہجوم سا لگ گیا۔ اللہ بخش نے گھر کی راہ لینے میں ہی عافیت جانی۔
”اوووو! میں، زرینہ سے نکاح کر رہا ہوں۔ محبت کرتے ہیں ہم دونوں۔“ اللہ بخش نے گھر پہنچتے ہی ایک کہرام مچا دیا۔ ”تو…. تو .. . تو مجھ سے محبت کرتا ہے۔ سلطان! تیرا دماغ چل گیا ہے۔ کیا وے ہمارے بچے سلطان کچھ تو سوچ ذرا۔“ رضیہ نے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔
”ہاں پر اب زرینہ سے کرتا ہوں اور بس۔“ اللہ بخش نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
”زرینہ تجھے خدا کا واسطہ میرا گھر خراب نہ کر۔“ رضیہ نے زرینہ کے آگے اپنا دامن پھیلا کر بیٹھ گئی۔
” نہ سلطان نے تیرے سنگ نہیں رہنا۔ وہ میرے عشق میں آپ جھلی ہے میں نے کچھ نہیں کیا پوچھ لے قسم سے۔“ زرینہ تو جیسے بلکل بھولی بن گئی۔ ”بہتری اسی میں ہے ہمیں نکاح کرنے دے تیری بھی عزت رہ جائے گی۔“ زرینہ نے اللہ بخش کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
رضیہ کے سر پر خون سوار تھا۔ ”وے احسان فراموش! وے بے غیرتاں! میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گی۔ تو، نکل آج ہی نکل ابھی نکل اٹھا اپنا سامان وے۔“رضیہ نے زرینہ کا سامان اٹھا اٹھا کر پھیکنا شروع کر دیا۔ طلاق طلاق طلاق اللہ بخش رضیہ کے سامنے آگیا اور رضیہ زمین پر ڈھیر ہوگئی۔
مہوش اشرف