23/02/2025 06:34

افسانہ: پت بھیڑے احسان الہی احسان

افسانہ: پت بھیڑے

افسانہ نگار: احسان الٰہی احسان

پت بھیڑے

‘توبہ توبہ’۔ میں یہ لفظ سنکر کر اچانک چونک اٹھا۔ کمرے میں بالکل تنہا، اپنے خیالات اور شعرو شاعری کی چکی میں مگن۔ جھکے ہوئے سر کو اٹھا کر دیکھا تو میرے دائیں طرف میرے ماورائی دوست چنوں میاں بیٹھے تھے۔ پسینہ میں شرابور جیسے وہ صحرائے گوبی کا لمبا اور دھوپ سے شرابور سفر طے کر کے آئے ہوں۔ ‘ارے’ تم کس وقت آئے’۔ میرا تو تم نے’تراہ’ نکال دیا ہے۔ کیا ہوا۔ توبہ توبہ کیوں کر رہے ہو۔ کیا اپنا کوئی گناہ یاد آیا ہے۔ یا کسی گناہ کا مشاہدہ ہوا ہے’۔ چنوں میاں نے کوئی جواب دینے کی بجائے ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھنا شروع کر دیا۔ جب اسکی نظروں کے تیروں کی چبھن مجھے پریشان کرنے لگی تو میں نے اپنا لہجہ ذرا نرم کر کے دوبارہ پوچھا۔ ‘کیوں توبہ توبہ کیوں کر رہے ہو’۔’ کیا تم نے کبھی حسن نثار کی باتیں سنی ہیں’؟ اس نے مجھ پر جواباً ایک سوال داغ دیا’۔ ‘یہ حسن نثار کون ہے’؟ ‘ارے تم حسن نثار کو نہیں جانتے۔ وہ دنیائے صحافت میں ایک قابلِ فخر نام ہے۔ خیر۔ تمہیں اس سے کیا۔ تمہارا کام تو صمن بکمن ہو کے بیٹھے رہنا ہے۔ شعر سوچتے رہنا اور جو کچھ ‘کوڑ پتوڑ’ شعروں کے ذریعے حاصل ہو اسے کہہ دینا۔’ ‘اچھا اچھا ۔ حسن نثار۔ ہاں میں نے اس کا نام سنا ہوا ہے۔ کیا یہ وہی ہیں جو اکثر گالی گلوچ والے لہجے میں باتیں کرتے ہیں۔ ہر وقت ہر کسی کو ڈانٹتا رہتے ہیں۔ ‘ہاں۔ ہاں۔ تم نے ان کے بارے میں جو نتیجہ نکالا ہے وہ بھی ٹھیک ہی ہو گا۔ لیکن’ چنوں میاں رک گئے جیسے وہ کوئی انتہائی ثقیل قسم کی بات سوچ کر کرنے والے ہوں۔ میں ان کی توبہ توبہ اور پریشان کن حالت زار سے پہلے ہی بیزار سا ہو چکا تھا۔ مزید اس کیفیت میں رہنے کی سکت نہیں تھی۔ لہذا بات کو ذرا ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ‘ہاں ہاں۔ مجھے سمجھ آ گئی ہے۔ تو حسن نثار کیا؟’ ‘حسن نثار جو ہر ٹی وی پروگرام میں اس بات کو دوہراتے ہیں کہ وہ قوم کو یہ بتاتے بتاتے بوڑھے ہو گئے ہیں کہ اس قوم کی بربادی کا اصل سبب معاشی بدحالی نہیں بلکہ اخلاقی تباہی ہے۔’ چنوں میاں نے اک گہری ‘آہ’ بھری جیسے یہ ‘توبہ توبہ کا دوسرا ایڈیشن ہر۔ ‘لیکن افسوس اس کی اس بات کو یہ لا پرواہ قوم سننے کے لئے بھی تیار نہیں’ ‘کیوں یہ اخلاقی تباہی تم نے کہاں دیکھی ہے۔ چنوں میاں’ ‘ہوں’۔ کہاں دیکھی ہے۔ مجھ سے یہ پوچھو کہ کہاں نہیں دیکھی، ایک چھوٹے سے آتھ دس سال کے بچے سے لیکر ملک کے سارے اشرافیہ تک۔ کیا کوئی شخص ، کوئی چگہ ایسی ہے جہاں اس اخلاقی تباہی کا مظاہرہ نہ ہو رہا ہو۔’ کچھ بات بھی تو بتاؤ ناں کہ ہوا کیا ہے’ ‘کیا بتاؤں۔ تم جانتے ہو کہ چھپڑ بازار چکوال کا مشہور ترین بازار ہے وہاں کے دکانداروں، سبزی فروشوں اور فروٹ فروشوں سے ایک رسم چلی جو کسی سیاست دان کے خلاف، جج کے خلاف یا کسی شریف آدمی (شریف سے میری مراد وہ کچھ نہیں جو تم سمجھ کر مسکرا رہے ہو)کو بدنام کرنے لئے ریلیز کی گئی کوئی ویڈو ہو۔جواخلاق سے گری ہوئی ویڈیوکی طرح وائرل ہو جاتی ہے۔ یہ رسم اسی طرح وائرل ہو گئی۔ جب دکاندار سے آپ کوئی بھی سبزی، فروٹ یا کوئی اور سودا لیں تو وہ ایک کام بڑے دھیان اور توجہ سے سر انجام ضرور دیتا ہے کہ وہ سودے والے شاپر پر اتنی مضبوط اور پکی گانٹھ لگا کے دیتا ہے کہ اگر آپ نے شاپر کو کھولنا ہو تو یا تو شاپر پھاڑنا پڑتا ہے یا گھر جا کے پلاس کی مدد سے ہی وہ گانٹھ کھولی جا سکتی ہے۔ ‘تو اس میں توبہ توبہ کرنے یا ٹھنڈی آہ بھرنے والی کون سے بات ہے’۔ میری اس بات پر بھی چنوں میاں نے اپنے ماتھے کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے مضبوطی سے پکڑ لیا اور ساتھ ہی ‘اف’ کا اداسی بھرا لفظ اس کی زبان سے پھسل گیا۔ ‘آگے سنو۔ میں نے آج ٹماٹر لینے تھے۔ ایک کلو۔ چھپڑ بازار پر سبھی سبزی فروشوں نے 50 روپے کلو لگائے ہوئے تھے جس کے وہ زور زور سے آوازے بھی لگا رہے تھے۔ ایک دکان پر تقریباً 10 سال کی عمر کا ایک بچہ بیٹھا تھا۔ وہ 40 روپے کلو کی آوازیں لگا رہا تھا۔ میرا دل بہت خوش ہوا کہ بچہ بڑوں سے ذیادہ دیانت دار ہے۔ کم منافع پر بیچ رہا ہے۔ میں اس کے کھانچھے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ خوشی خوشی سے کہا کہ ایک کلو ٹماٹر دے دو۔ اس نے فوراً ایک شاپر نکالا۔ بہت اچھے اچھے ٹماٹر اس میں ڈالے۔ وزن کیا تو تقریباً دیڑھ کلو سے ذیادہ ہوا۔ اس نے شاپر کو کانٹے سے اتا کر بھٹے کے پاس نیچے رکھا۔ پانچ سات ٹماٹر اس میں سے نکال کر ٹوکرے میں واپس رکھ۔ے باقی ماندہ کا دوبارہ وزن کیا۔ ایک کلو پورا تھا۔ وہ شاپر کو مضبوطی کے ساتھ گانٹھ لگانے لگا تو میں نے اسے کہا کہ گانٹھ نہ لگائے۔ مجھے شک ہوا کہ شاپر میں پورا ایک ہی کلو وزن کیسے رہ گیا ہے ۔ میں نے وہ شاپر اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ کھولا تو۔۔۔’توبہ توبہ’ شاپر میں تین چوتھائی گلے سڑے ٹماٹر۔ میں نے ان میں سے چار پانچ تماٹر نکال کر اس کے سامنے رکھے۔ وہ حیرت سے مجھےاور میں اس کو دیکھ رہا تھا۔ ‘تمہیں شرم نہیں آتی کہ اس چھوٹی سی عمر میں ہی تم نے بد دیانتی کے یہ گُر سیکھ لئے ہیں’۔ توبہ توبہ کرتے ہئے شاپر وہیں پر رکھا اور بھاگا بھاگا ادھر چلا آیا۔ ‘اچھا ۔ تو یہ بات ہے تہہارے توبہ توبہ کرنے کی’۔ ‘جی’ اور مجھے حسن نثار کا ماتم بھی یاد آنے لگا۔ کیونکہ جب تک ہمارے معاشرے میں یہ پت بھیڑے ختم نہیں ہوتے۔ ہمارا معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔۔’ ‘چنوں میاں یہ کیا کہا۔ ‘پت بھیڑے’ یہ کیا ہوتے ہیں۔ میں نے تو آج تک یہ الفاظ پوری اردو میں نہیں سنے۔ ‘ ارے اردو میں ایسے لفظ کہاں جو تم سنو۔ یہ الفاظ تو ہم اپنے بزرگوں کی زبان سے اس وقت سے سنتے آئے ہیں جب ہم ٹھیک طور پر پیدا بھی نہیں ہوئے تھے نہ ہی ہمیں اردو کی الف با آتی تھی۔ یہ انہیں کی مادری زبان کا کوئی لفظ ہوگا۔ البتہ میں تم کو اس کا مطلب بتا سکتا ہوں۔ پت بھیڑے وہ مشروم ہوتے ہیں۔ جو کالے رنگ کے ہوتے ہیں ۔ کھلی چھتری کی طرح کے ہوتے ہیں۔ یہ زہریلے ہوتے ہیں اور ان کے کھانے سے آدمی مر بھی سکتا ہے۔ ‘اچھا’ تو حسن نثار نے اس بیماری کا کوئی علاج نہیں بتایا۔’ ‘بتایا ہے۔ لیکن اس بے چارے کی سنتا کون ہے۔ وہ تو بار بار دہائی دے رہا ہے کہ یہ قوم اخلاقی طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ پورا معاشرہ اس بد دیانتی کی زد میں ہے۔ وہ چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا ہے کہ اگر اصلاح کرنی ہے تو پہلے پرائمری سکول کے ایسے اساتذہ تیار کرو جو انتہائی با کردار، دیانت دار، فرض شناس اورذمہ دار ہوں۔ پھر ان سے پرائمری کلاسز سے میٹرک تک کی کلاسز دیانت دار اور اخلاقی اقدار سے بھرپور طلبا کی کھیپ سے تیار کرو۔ اس کام میں کم از کم دس سال لگیں گے۔ لیکن اس کھیپ سے ہی آپ کے معاشرہ کی تعمیرِ نو شروع ہو گی اور ملک اور قوم کو اخلاقی تباہی سے بچنے کا بھی راستہ نکلے گا۔ اخلاقی تعمیرِ نو ہوئی تو سیاست اور معیشت خود بخود سدھرنا شروع ہو جائے گی۔ لیکن پتہ نہیں کہ اس بے چارے کی بات بھی کوئی سنے گا یا نہیں۔ کیوں کہ ہر کسی کو اپنی معاشی حالت بہتر کرنے کی اور اپنا سٹیٹس بلند کرنے کی پڑی ہوئی ہے۔ ‘ یہ بھڑاس نکالنے کے بعد محسوس ہو رہا تھا کہ چنوں میاں کی حالت اب نارمل ہو گئی ہے۔ شاید اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔

احسان الٰہی احسان۔ صدر ایوانِ ادب ۔ چکوال۔ پاکستان

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین