گُھٹی کا اثر – Ghati Ka Asar

انسان فطرتاً جلد باز خلق کیا گیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ ہرمعاملے اور کام میں جلدبازی کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے ، اب وہ جلد بازی کامیابی حاصل کرنے کی ہو یا پھر حصول زَر ، زَن ، یا پھر زَمین کی ، اُسے یہ سب چیزیں قبل اَز وقت اور فوری طور پر ہی درکار ہوا کرتی ہیں۔
نعمان کا شمار بھی انہی لوگوں کی فہرست میں تھا، بلکہ تھا بھی سرِ فہرست ۔
اُس نے انٹرنیشل ریلیشنز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی اور اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ بین الاقوامی اُمور پر گہری نگاہ ، عبور اور مہارت رکھنےمیں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔
ویسے سیانے کہا کرتے ہیں کہ کامیابی صرف ایک ہی بار انسان کی دہلیز پر دستک دیا کرتی ہے ، پَھر اُس کے ہاتھ میں آتے ہی اُس کا بھرپور فائدہ اُٹھانا اور اُسے اپنی مُٹھی میں کرنا انسان کا اپنا ہُنر اور کمال ہے۔
عین جوانی ہی میں وقت اور حالات نے اچانک اُس کے حق میں ایسی کروٹ لی کہ اُس کے وارے نیارے ہوگئے ، اُس کی مہارت اور قابلیت نے اس کے لیئے شعبہء بین الاقوامی اُمور تک رسائی کے تمام در کھول دیئے ، یوں اس نے اپنی زیست کا ایک طویل عرصہ ودیشی سفارت خانوں میں بحیثیت سفیر کے گزار دیا ، مغربی ممالک میں دورانِ قیام اُس کی سوچ اور سوچنے کے تمام تر زاویے بھی بدل کر بالکل مغربی سے ہو کر رہ گئے ، یہی وجہ تھی کہ اُس نے شادی بھی ایک اچھے خاصے روشن خیال خاندان کی ایک روشن خیال اور مغربی طرز کی لڑکی سے کرلی ۔ تینتیس سالہ سروس کے آخری چند برس بحیثیتِ وفاقی معتمد اعلیٰ کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سر انجام دینے کے بعد اِسی کلیدی عہدے پر ہی ریٹائر ہوگئے ۔
پروردگار نے اُن دونوں پر اپنا احسان عظیم فرماتے ہوئے انہیں ایک انتہائی پرکشش اور جازِبِ نظر فرزند سے نوازا تھا ، دونوں نے مل کر اُس کے لیئے ایک بہترین نام کا انتخاب کرتے ہوئے اُس کا نام عدنان رکھ دیا ۔
والدین کی خواہش کے عین مطابق عدنان کی تربیت بھی مکمل طور پے مغربی طرز پر کی گٸی ۔
مولائے کریم کی نوازشات اور باپ کے اوپر اور نیچے کی آمدنی کی بدولت عدنان کو کسی بھی شئے کی کوئی بھی کمی نہ تھی ، بنگلہ ، گاڑی ، بینک بیلنس ، فارم ہاوسسز ، جائیدادیں ، جاگیریں ، الغرض اگر یہ کہا جائے کہ منہ میں سونے کا چمچ لیئے اس کا جنم ہوا تھا ، تو یہ بات قطعاً غلط نہیں ،
نئے نئے برانڈز کے کپڑے ، جوتے ، عطریات ، گھڑیاں ، موبائل فونز ، ہیوی بائیکس ، اور گاڑیاں نیز کیا کچھ نہ تھا جو اُسے میسر نہ ہو۔
الفاظ منہ سے ادا ہو ہی نہیں پاتے کہ ضرورت کی چیز اُس کے سامنے پیش کردی جاتی،
عدنان اکلوتا فرزند ہونے کی وجہ سے اپنے والدین کے ہر سیاہ و سفید کا واحد اور اکلوتا وارث تھا ۔
شام کا سورج ڈھلنے سے قبل ہی وہ اپنی ہیوی بائیک لیکر کر دوستوں کی جانب نکل پڑتا اور اور اُن کے ساتھ مل کر خوب موج مستیاں کرتا اور جب ٹریفک کے رش کا زور تھم جاتا تو رات بارہ بجے کے بعد وہ شہر کی کُھلی اور سُنسان سڑکوں پر دوستوں کے ساتھ مل کر وَن وِیلنگ کے مزے لُوٹتا ، بصورتِ دیگرمغربی افکار کے عامل لڑکیوں کے ساتھ ریسٹورینٹس ، پارکس یا پھر بادہ خانوں میں رات گئے تک بیٹھ کر گپ شپ میں مگن رہتا ۔