تحریر رونق حیات

نومبر کا مہینہ آتا ہے تو اقبال کی شخصیت، اس کی شاعری اور فکر و فلسفے پر ادبی سماج میں اظہار خیالات کی شمعیں فروزاں ہونے لگتی ہیںپاکستان کا جہان ادب ہو یا اردو کی نئ بستیوں کے ادبی حلقے”اقبال ڈے” ادب و احترامات کے ساتھ مناتے اور اقبال کو عقیدت و محبت کے نذرانے پیش کرتے ہیں جب کہ پاکستانی سرحدوں سے جڑے ہوئے دو ملک بھارت اور ایران میں بھی اقبال کی علمو حکمت اور فلسفے کو قبولیت عام حاصل ہوتی جارہی ہے۔
آج 9 نومبر 2022 کو ڈاکٹر سر محمد اقبال کا 145 واں یوم ولادت ہے اور ان تمام سالوں میں ہر سال ہم نے اقبال کو گذشتہ سال سے زیادہ چاہا ہے اس کی فکر اور فلسفے کی گتھیاں اہل دانش نے سلجھائ ہیں اس کی شاعری کے اسرار و رموز کی پرتیں کھولی ہیں اور ایک لمحہ بھی اس کے شخصی و شعری خانہء طلسم سے باہر نہیں نکلے ہیں۔
اقبال ہمارا وہ محبوب شاعر ہے جو اپنے اسلوب اور شعری تخلیقی عمل میں اول بھی ہے اور آخر بھی، اس کے آئینہ خانہء شاعری میں بڑے سے بڑے شاعر کو اپنی تخلیقی تصویریں دھندلی دکھائی دیتی ہیں اسی لیے وہ یکتائے زمانہ ہے کہ دوسرا کوئی شاعر اس کے طرز سخن کو اختیار نہیں کر سکا دراصل اس کی شاعری کے مضامین گل و بلبل کی داستانوں اور وصال و ہجر کے شاد و ناشاد موسموں سے بہت دور ایسے شعری سانچوں میں آراستہ و پیراستہ ہوتے ہیں جو ایک خواب پریشاں کی تعبیر بننے کے لیے بے چین پائے جاتے ہیں اقبال کی پوری شاعری مسلمانوں کے لیے ایک آفاقی پیغام سے مرصع ہے اقبال کے خطبات اس کی دیگر نثری تحریروں میں فلسفیانہ افکار اور اس کے خطوط اہل دانش و بینش کی خاص توجہ چاہتے ہیں وہ ایک صاحب بصیرت مسلم فلسفی اور امت مسلمہ کو اپنی شاعری سے بے دار کرنے والے شاعر ہیں۔
عام آدمی کی طرح اقبال نے بھی اپنی زندگی میں بہت خواب دیکھے مگر یہاں اس وقت اقبال کے دو خوابوں کا ذکر بطورخاص مطلوب و مقصود ہے ایک مسلم امہ کے بکھرے ہوئے شیرازے کی وحدت اور غفلت کی نیند سے مسلمانوں کی بے داری کا خواب ہے جس میں اس کی شاعری کا جہان شکوہ کناں ہے اسلامی نظریے کے پیش نظر اقبال کا کلام ضرب کلیم ہی نہیں بانگ درا بھی ہے وہ بکھرے ہوئے مسلم شیرازے کو یکجا کرنے کا خواب دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
اقبال کا یہ خواب ہنوز تشنہء تعبیر ہے اقبال کی زندگی میں مسلمانوں کے مجموعی حالات اتنے تشویش ناک نہیں تھے جو بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے پر ہم دیکھ اور محسوس کر رہے ہیں مسلم ممالک کے حکمرانوں کی غفلت، مصلحت پسندی، یہود و نصارٰی کی قربت و ہم نوائی نے اقبال کے خواب کو اس کی تعبیر سے بہت دور کردیا ہے
اقبال کا دوسرا خواب پاکستان ہے جو اپنے ابتدائی دور سے سماجی، سیاسی، لسانی اور معاشی بحرانوں کے ساتھ سازشی عناصر میں بھی گھرا ہوا ہے جس سے اس کی اکائی کے بکھرنے کے خدشات مزید لاحق ہوتے جا رہے ہیں امن و امان کے ساتھ پاکستان میں انصاف کی دست یابی، بد ترین طرز حکومت، عدم تحفظ، ک۔ الیکٹرک کی لوٹ مار، غلاظت ملا پینے کا پانی، بےروزگاری، اشیائے ضرورت کی قیمتوں کے تعین سے تجاوز نے اقبال کے دوسرے خواب کا بھی شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ اقبال ہمارا قومی شاعر اور مصور پاکستان ہے مگر اقبال کے خواب کی تعبیر پاکستان میں اس قومی شاعر کے یوم ولادت کو کئ سال پہلے حکمراں طبقے نے قومی دنوں سے نکالا دے کر اقبال ڈے کی عوامی چھٹی منسوخ کردی تھی جس کا واضح مطلب عوام کو فکر اقبال سے دور کرنا تھا یہ ہے ہمارے حکمراں طبقات کی قومی شاعر سے عقیدت و محبت جب کہ پاکستانی حکمراں طبقے کے بہ قول پاکستان کا خواب شاعر مشرق نے دیکھا تھا تو اس حقیقت حال پر نوحہ کناں ہو جائیے کہ شاعر مشرق کے خواب کی تعبیر میں سب سے زیادہ ابتر حالات شاعروں کے ہی ہیں اور یہ وہی شاعر ہیں جنہوں نے دنیا میں سب سے زیادہ اپنے ملک سے محبت اور وفا کے ترانے لکھے شاعر مشرق کے پاکستان میں جو زبان و ادب کی ترویج اور فروغ کے لیے سرکاری ادارے قائم کیے گئے انہیں بیوروکریسی اور ادبی مافیا تقریبا” نگل چکی ہے اور یہ ادارے ایسے عناصر کے ہاتھ میں آگئے ہیں جن کا علم و ادب سے دور پرے کا بھی واسطہ نہیں ہے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ قلم کار کی سرکاری طور پر تعریف تک متعارف نہیں کرائی گئی فروغ ادب کے ادارے افسران کے معاش اور تعیشات کا ایندھن بن گئے ہیں۔ اقبال کی محبوب زبان اردو جس میں اس کا کلام ابدی حقیقت بن چکا ہے قومی زبان کے اعزاز سے محروم ہے جب کہ عوام، آئین اور عدالت عظمٰی نے اسے قومی زبان کا درجہ دیا ہوا ہے اس کے نفاز اور سرکاری دفاتر میں رائج کرنے احکامات بھی وضاحت و صراحت کے ساتھ موجود ہیں یہ وہی اردو ہے جس کی بارے میں اقبال نے کہا نے کہا تھا
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائ دل سوزیء پروانہ ہے
اقبال کے پاکستان میں پاکستانی ادب حکومتی سرپرستی سے محروم اور غیر سرکاری ادبی تنظیموں کا پرودہ ہے اگر وطن عزیز میں ادبی تنظیمیں اور محبان شاعری ادبی سرپرستی سے دست کش ہوجائیں تو زبان و ادب کے اس روشن چراغ کو گل ہونے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی۔
اقبال کے متذکرہ دونوں خواب اقبال کی خوابیدہ آنکھوں میں اشک بن کر رہ گئے ہیں عالم بالا میں اس کی آنکھیں تعبیر کی دہلیز پر محرومیوں کا سر نامہ بن گئی ہیں۔
رونق حیات کراچی