غزل
الجھنوں میں کیسے اطمینان دل پیدا کریں
بجلیوں میں رہ کے تنکوں کا بھروسہ کیا کریں
ضبط آنسو جب کئے تو اچھلا چہرے پر لہو
غم کی موجیں روکنے سے راستہ پیدا کریں
کہتے ہیں قصہ زمانے سے یہی تشویش ہے
سی لئے ہیں لب مگر ان آنسوؤں کو کیا کریں
ہم بھی بندے ہیں ہمیں بھی مقدرت اتنی تو ہے
وہ خدا بن جائے جس کے سامنے سجدا کریں
طاقت دیدار ظاہر اور آنکھوں کو یہ شوق
بس تمہیں دیکھا کریں دیکھا کریں دیکھا کریں
چاہتے یہ ہیں کہ راہ زندگی ہموار ہو
سوچتے یہ ہیں کہ دنیا کو تہہ و بالا کریں
بے وفا سورج ڈھلا جاتا ہے چشم شوق سے
اور کب تک اعتبار وعدۂ فردا کریں
مصلحت کا یہ تقاضا ہے کہ ہنسنا چاہئے
بزم ہستی میں صباؔ کب تک غم دنیا کریں
صبا اکبر آبادی