امراض بڑھ چکے ہیں دوائی نہیں رہی
اس تگ و دو میں آدھی خدائی نہیں رہی
جوتے بدل لئے تھے تروایح میں ایک شب
کپڑے تو سِل چکے ہیں سِلائی نہیں رہی
حاکم نے ہم کو لقمے کھلانے تھے ہاتھ سے
وہ کیا کرے کہ اب وہ گدائی نہیں رہی
جو چِیر پھاڑ کی ہے معیشت نے قوم کی
ماضی میں اسطرح تٙو قصائی نہیں رہی
میکے نہ جا سکے گی تُو عیدی بٹورنے
بیگم کسی کی اب وہ کمائی نہیں رہی
لائے گا کون گھر پہ مٹھائی یا بوتلیں
دو فٹ کا فاصلہ ہے رسائی نہیں رہی
(رحمت اللہ عامر)