غزل
امید کا دامن تو مرا چاک نہ کرنا
یوں مجھ پہ ستم اے دل سفاک نہ کرنا
تاریکئ شب ہے مرا پہلے سے مقدر
اور تم بھی اندھیرے مری املاک نہ کرنا
یہ زخم انا کافی ہے اے یوسف دوراں
اب چشم زلیخا کو تو نمناک نہ کرنا
جب نیندیں بچھڑ جائیں تو آ جاتی ہیں یادیں
اس خواب نگر کو پس افلاک نہ کرنا
بیٹھی ہوں امیدوں پہ بہارؔ آئے گی شاید
یوں آس جزیرے کو تہ خاک نہ کرنا
بہار النساء بہار