loader image

MOJ E SUKHAN

انتظار سید —درمیانی کائنات کا شاعر

انتظار سید —درمیانی کائنات کا شاعر

انجم سلیمی

ڈیرہ اسماعیل خان سے جواں فکر شاعر انتظار سید کی شاعری نئی نسل کے ان نمائندہ لہجوں میں سے ہے جن میں روایت کی گونج کے ساتھ داخلی کرب کی تازگی اور جدید علامتی شعور بھی شامل ہے۔ ان کے اشعار میں نیند، آنکھ، سفر، دیے، کرن، مزار، ماتھا، موج، اور نجف جیسے الفاظ صرف الفاظ نہیں بلکہ ایک داخلی کائنات کے در وا کرتے ہیں۔
ان کا تخیل روایتی اظہار سے آگے بڑھ کر نئے استعارے تراشتا ہے، جیسے:
میں خود کو سندور مانتا تھا مگر غلط تھا
کہ میں تو اک عمر اس کے ماتھے کا بل رہا ہوں
یہ شعر محض شکستہ محبت کا بیان نہیں، بلکہ اس میں ذات کی تشکیل میں دوسرے کی توقعات سے بننے والے زخم کی علامت شامل ہے۔ شاعر اپنی حیثیت کو نرمی سے مگر بےرحمی کے ساتھ کھولتا ہے۔
اسی طرح یہ مصرع:
ہم دیے ہاتھ بٹاتے ہیں وہاں سورج کا
محض رومانوی یا وجدانی تجربہ نہیں بلکہ کائناتی قوتوں سے انسان کی شراکت کا اعلان بھی ہے — ایک طرح سے شاعر خود کو آفاقی نظم میں ایک ذرے کی طرح محسوس کرتا ہے، مگر اس ذرے کو روشنی کی سازش میں شریک جانتا ہے۔
انتظار کی شاعری میں ایک مخصوص "نیند آلود ادراک” کی کیفیت ہے، جیسے سب کچھ خواب میں ہو رہا ہو مگر اثر اس کی شدت میں بیداری کو چیر جائے:
کہ راہ دیکھتے ہوئے سَمے کی آنکھ لگ گئی
اور پھر:
مرے شعور سے جو کچھ نہ آنکھ دیکھ سکی
زمیں کی آنکھ کھلی تو وہ سب نظر آیا
یہ اشعار ادراک کی کئی تہوں کا اشارہ دیتے ہیں، جیسے خواب، وقت، اور زمین خود ایک شعور رکھتے ہیں اور انسان ان کے درمیان الجھا ہوا ایک خاموش راہی ہے۔
ان کی شاعری میں عرفان، شکست، امید اور جدلیاتی تناؤ بیک وقت موجود ہیں۔ وہ اپنے قاری کو صرف جمالیات میں نہیں رکھتا بلکہ سوالات میں دھکیلتا ہے، جیسے:
یہ کون لوٹ رہا ہے خفا خدا کی طرف
ایسا لگتا ہے جیسے شاعر نے "نئی شاعری” میں پرانی روح کو نئے بدن دیئے ہیں۔ اور یہی اس کا امتیاز ہے۔ انتظار سید کی یہ نظمیت، خوابیدگی، اور احتجاجی لطافت — سب ایک ایسے شاعر کی نشانیاں ہیں جو صرف اظہار نہیں کرتا، احساس میں رچ کر قاری کے باطن سے مکالمہ کرتا ہے۔
مختصر یہ کہ انتظار سید کی شاعری ایک درمیانی کائنات ہے— جہاں روایت کی نیند، جدیدیت کے خواب، اور روح کی بیداری ایک ساتھ سانس لیتے ہیں۔
کچھ منتخب اشعار سے لطف اٹھائیے آپ بھی *
آنکھوں میں ایسی نیند بھری اس نے انتظار
سو کر اٹھا تو آنکھ زمانے نگل گئی
مرے قدم جانے کن دشاؤں کو کھوجتے ہیں
مری ہتھیلی پہ جانے کس سمت کا سفر ہے
رزقِ دیدار عطا کر کہ بہت دیر ہوئی
یا کوئی شال ہی بھجوا دے کہ بینائی ملے
مِری نظر کا مُنتَظر نہ جانے کب گزر گیا
کہ راہ دیکھتے ہوئے سَمے کی آنکھ لگ گئی
مِری تمام مَنتیں مزار پر پڑی رہیں
فقیر جاگتا رہا ، دیے کی آنکھ لگ گئی
چھوڑ جاتی ہےکرن ساتھ جہاں سورج کا
ہم دیے ہاتھ بٹاتے ہیں وہاں سورج کا
پھر ایک سَمت سے اُبھری وہ آفتاب نظر
کہ ماند پڑنے ہی والی تھی سب چمک میری
یہ کس کی آنکھ سے دنیا بہ طرزِ اشک گری
یہ کون لوٹ رہا ہے خفا خدا کی طرف
میں بہت دیر سے پہنچا تھا سرِ راہِ جنوں
کھائے جاتی ہے گئے وقت کی تاخیر مجھے
مرے شعور سے جو کچھ نہ آنکھ دیکھ سکی
زمیں کی آنکھ کُھلی تو وہ سب نظر آیا
مرا نصیب نہیں تھا یہ تیری عجلت تھی
میں آسماں تیرے ہاتھوں سے چھوٹ کر ٹوٹا
ڈر ہے کہ ڈوب جاؤں نہ موجِ گریز مِیں
مَیں بھی کسی کی آنکھ سے نم کھینچتا ہوا
میں گر پڑا تھا وقت کے ہاتھوں سے انتظار
اپنی حدودِ ذات سے غم کھینچتا ہوا
آخری جنگ ہے اور تیغ بکف ہوں میں بھی
جنگ بھی تجھ سے ہے اور تیری طرف ہوں میں بھی
میں دھڑکتا ہوا دل ہوں کسی مولائی کا
مجھ میں تعظیم سے رہ ، کنج نجف ہوں میں بھی
رواں ہیں اپنی ہی رو میں مگن آہستہ آہستہ
ستارے، چاند، میں ، جگنو ہرن آہستہ آہستہ
رہا ہو جائیں گے اک دن اچانک جسم کے قیدی
بدن کھا جائیں گے طوق و رَسن آہستہ آہستہ
*شاعر؛ انتظار سید