انجان سی خواہش میں وہ دن بھی نظرآئے
دن بھرکی تھکن لے کر ہم شام کو گھرآئے
پھر تو نے ہمیں اپنی اوقات دکھائی ہے
"پھر تیری تباہی کے آثار نظر آئے”
اس دور میں چوپالیں لگتی ہی نہیں ورنہ
بچوں پہ بزرگوں کا تھوڑا تو اثر آئے
دریائے تخیّل میں غرقآب کیا خود کو
تب جا کے نظر مجھ کو دو چار گہر آئے
دھندلا نہ کہیں جائے اس بزم کی رعنائی
آنکھوں میں لئے کتنے ہم شمس وقمر آئے
سر اپنا جھکائے ہم بیٹھے رہے اک جانب
اٹھ کر تری محفل سے با دیدۂِ تر آئے
چیلنج پڑوسی کا "مختار” کچھ ایسا تھا
آنے کو نہیں تھے ہم پردیس، مگر آئے
مختار تلہری ثقلینی