Andar ki baat baat say aagay ki cheez Hay
غزل
اندر کی بات بات سے آگے کی چیز ہے
عشق ان کے التفات سے آگے کی چیز ہے
گلزار پھول پات سے آگے کی چیز ہے
دل تیری کائنات سے آگے کی چیز ہے
ہر ذات ہی صفات سے آگے کی چیز ہے
لیکن وہ ذات ذات سے آگے کی چیز ہے
اس بار غم کی رات میں جانے ہے کیا مگر
کچھ ہے جو غم کی رات سے آگے کی چیز ہے
راہ فرار عشق کو سمجھے چلا ہے کوئی
آگے غمِ حیات سے آگے کی چیز ہے
مفعول فاعلات کہاں اور غزل کہاں
الہام فاعلات سے آگے کی چیز ہے
سامانِ شاعری سے نہیں شانِ شاعری
لکھنا قلم دوات سے آگے کی چیز ہے
ہم وارداتِ قلب سمجھتے تھے عشق کو
یہ فتنہ واردات سے آگے کی چیز ہے
عہدِ کہن کے پوچھیے ملا سے معجزے
جو خود عجائبات سے آگے کی چیز ہے
راحیلؔ ہارے ہی نہیں مارے بھی ہم گئے
دل کی شکست مات سے آگے کی چیز ہے
راحیلؔ فاروق
Raheel Farooq