Andhay ko sar patakhty Hoyee raat ho gaee
غزل
اندھے کو سر پٹختے ہوئے رات ہو گئی
حاتم سَرِشت سمجھا کہ خیرات ہوگئی
ورنہ کہاں میں تیرے بھی بارے میں جانتا
اچھا ہوا خدا سے مری بات ہو گئی
اس سومناتِ دل میں کئی بت حسین تھے
میں غزنوی بنا تھا مگر مات ہو گئی
دل کی خطا پہ روح ، بہت دیر تک جلی
اتنا ہوا کہ آنکھ بھی محتاط ہوگئی
بستی کی اس حویلی سے انصاف کیا اٹھا
اپنے بُرے عمل کی مکافات ہو گئی
دیتی تھی ماں دعا تو خدا مسکرائے تھا
ہر اک جہاں سے میری بری ذات ہو گئی
صابر کوئی دعا مجھے گھیرے ہوئے رہی
بازو بنی کہیں پہ ، کہیں ہات ہو گئی
صابر چودھری
Sabir Choudhry