loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

20/04/2025 08:15

انسانی درندے اور اس آسانی سے مر جائیں

غزل

انسانی درندے اور اس آسانی سے مر جائیں
یہ سوچنے بیٹھیں تو پریشانی سے مر جائیں

وہ جن کو میسر تھی ہر اک چیز دگر بھی
ممکن ہے سہولت کی فراوانی سے مر جائیں

کشتی پہ تھے کشتی کو جلاتے ہوئے حضرات
اب آگ سے بچ جائیں بھلے پانی سے مر جائیں

آئینے کا یہ کون سا سیزن ہے ہمیں کیا
دیوار کو تکتے ہوئے حیرانی سے مر جائیں

بابرؔ کوئی جذباتی کرونوں سے یہ پوچھے
کس کھاتے میں ہم آپ کی نادانی سے مر جائیں

اے دوست مکمل نظر انداز ہی کر دیکھ
ایسا نہ ہو ہم نیم نگہبانی سے مر جائیں

بچ جائیں تو آخر کسے کیا فرق پڑے گا
دشمن نہ سہی دوست پشیمانی سے مر جائیں

آنکھوں میں اترتے ہوئے اترائیں ستارے
سورج ہوں تو جل کر تری پیشانی سے مر جائیں

رانجھے کو تو پھر ہیر کی تصویر بہت ہے
جی کرتا تھا لگ کر اسی مرجانی سے مر جائیں

ادریس بابر

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم