غزل
انسانی درندے اور اس آسانی سے مر جائیں
یہ سوچنے بیٹھیں تو پریشانی سے مر جائیں
وہ جن کو میسر تھی ہر اک چیز دگر بھی
ممکن ہے سہولت کی فراوانی سے مر جائیں
کشتی پہ تھے کشتی کو جلاتے ہوئے حضرات
اب آگ سے بچ جائیں بھلے پانی سے مر جائیں
آئینے کا یہ کون سا سیزن ہے ہمیں کیا
دیوار کو تکتے ہوئے حیرانی سے مر جائیں
بابرؔ کوئی جذباتی کرونوں سے یہ پوچھے
کس کھاتے میں ہم آپ کی نادانی سے مر جائیں
اے دوست مکمل نظر انداز ہی کر دیکھ
ایسا نہ ہو ہم نیم نگہبانی سے مر جائیں
بچ جائیں تو آخر کسے کیا فرق پڑے گا
دشمن نہ سہی دوست پشیمانی سے مر جائیں
آنکھوں میں اترتے ہوئے اترائیں ستارے
سورج ہوں تو جل کر تری پیشانی سے مر جائیں
رانجھے کو تو پھر ہیر کی تصویر بہت ہے
جی کرتا تھا لگ کر اسی مرجانی سے مر جائیں
ادریس بابر