غزل
انصاف کی گردن پر خنجر خود چلتے دیکھا کیا کہیے
احباب پرستی کے چکر میں پڑ گئی دنیا کیا کہیے
پھر ذکر صداقت چھیڑ کے اپنی جان کا دشمن کون بنے
دنیا کی نگاہوں نے دیکھا دنیا کا تماشا کیا کہیے
وہ دیکھ ہوس کے دوش پہ شاید عشق کی میت جاتی ہے
اب اس دنیا میں کیا ہوگا اہل وفا کا کیا کہیے
جو آج سنہری پردوں میں چہروں کو چھپائے بیٹھے ہیں
تقدیر کے ماروں سے ان کا کل وعدہ کیا تھا کیا کہیے
جس بستی میں انسانوں کا دل غم کے ہاتھوں چھلنی ہو
اس بستی میں بسنے والوں کے دل کی تمنا کیا کہیے
کچھ لوگ یہاں ہیں ایسے بھی کل سب کچھ تھے اب کچھ بھی نہیں
باقی ہے فقط تنہائی میں اشکوں کا سہارا کیا کہیے
غیروں کے ستم سے بچ نکلے اپنوں کے کرم سے بچ نہ سکے
ایسے میں اگر مجبور کرے غیرت کا تقاضا کیا کہیے
کہتے ہیں گذشتہ دور کو پھر تاریخ جہاں دہراتی ہے
کس دھن میں گاتا پھرتا ہے تقدیر کا دھارا کیا کہیے
دنیا میں جی سے جائے گا کون امن عالم کی خاطر
یہ وقت بتائے گا بیٹھے کس کروٹ دنیا کیا کہیے
ہر ایک مجاہد سے لاکھوں امیدیں ہیں مظلوموں کو
اس ٹوٹی ناؤ کا کون بنے کس وقت سہارا کیا کہیے
ابوالفطرت میر زیدی