ان کہی باتوں کی گہری تشنگی میں اضطراب
بے صدا نغموں کی طرز نغمگی میں اضطراب
ساحلوں سے وصل پر بھی ہے سکوں نا آشنا
سر پٹختی موج کی دیوانگی میں اضطراب
چاندنی بن بن کے بہتا ہے لہو مہتاب کا
مجلسِ شب کی سلگتی تیرگی میں اضطراب
وقت کے بوڑھے سمندر میں حوادث کے بھنور
منتقل کرتے رہے آسودگی میں اضطراب
مصلحت کا جبر سہ کر اور بھی بڑھنے لگا
سسکیاں لیتی ہوئی بیچارگی میں اضطراب
خواہش وابستگی کے رنگ پھر بھرنے لگے
ایک ٹوٹے ربط کی آزردگی میں اضطراب
لمحہ لمحہ جو بھی گزرا غفلتوں کے سائے میں
گھولتا ہی جا رہا ہے بندگی میں اضطراب
پھر فزوں تر کر رہی ہے ہر نئی شام الم
مندمل ہو تی ہوئی افسردگی میں اضطراب
مطمئن کیا ہو سکے گا بے سکونی کا فتور
نور بڑھتا جا رہاہے زندگی میں اضطراب
نور شمع نور