ان کی آمد سے جو ارمان مچل جاتے ہیں
خود بخود راہ کے آثار بدل جاتے ہیں
ہم تو ان لوگوں میں شامل ہیں ہمارا کیا ہے
جو امیدوں کے سہارے ہی بہل جاتے ہیں
میری آنکھوں میں ترے ہجر کے آنسو ہیں جمے
وہ مرے جذبوں کی حدت سے پگھل جاتے ہیں
صبح صادق کی طرح اجلے ہیں جذبے ان کے
جو برے وقت میں گر کے بھی سنبھل جاتے ہیں
ایسا انسان کہ جس کا کوئی غم خوار نہ ہو
ایسے انسان کو حالات نگل جاتے ہیں
میری آنکھوں سے بھلا خشک ہوں آنسو کیسے
کیا کبھی چھوڑ کے پانی کو کنول جاتے ہیں
بینا گوئندی