ان کی رحمت سے ہوں گلزاروں کے بیچ
راستہ بنتا گیا خاروں کے بیچ
دشمن حق عظمت سرکار سے
لوٹتے رہتے ہیں انگاروں کے بیچ
ان کے روضے پر ہوا محسوس یوں
آگئے جیسے چمن زاروں کے بیچ
جسم و جاں کے زخم سارے بھر گئے
آگئے جب آپ بیماروں کے بیچ
دیکھیے تو مسجد خیر البشر
نور کا دریا ہے میناروں کے بیچ
گونج اٹھا تھا نعرہء تکبیر سے
بدر کا میدان تلواروں کے بیچ
نور کی بارش وہاں رکتی نہیں
رنگ ہیں جنت کے دیواروں کے بیچ
آپ ہیں جب مہرباں تو آئے کیوں
نا امیدی ہم گنہ گاروں کے بیچ
بڑھتی جاتی ہے محبت کس قدر
خاک طیبہ کے طلب گاروں کے بیچ
نعت لکھتے ہیں جو رونق مستقل
میں بھی ہوں اب ان قلم کاروں کے بیچ
رونق حیات