غزل
ان کے آنے سے بدل جاتی ہے صورت میری
ایک آہٹ سے ہی بڑھ جاتی ہے نکہت میری
کیسے بتلاؤں کے وہ مرمری مورت کیا ہے
پردہ ہٹتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری
وہ گزرتی ہے مری خواب کی گلیوں سے بھی
وصل کی رات میں بڑھ جاتی ہے الفت میری
پیکر حسن پہ رقصاں ہے جوانی اس کی
چاندنی شب میں نکھر جاتی ہے ندرت میری
جب کبھی نازنیں کی پڑتی ہے دزدیدہ نظر
تب شغفؔ آپ ہی بڑھ جاتی ہے شہرت میری
پروین شغف