نیا یہ آج کے پرچہ نے گل کھلایا ہے
کہ سہرا باندھ کے اک اونٹ بلبلایا ہے
شتر کے گھر میں پیامِ بہار ہے سہرا
کبھی کبھی تو بڑا بے مہار ہے سرا
مرے بنے کو مبارک یہ خوش گوار گھڑی
کہ سر کا درد بڑھا ناک میں نکیل پڑی
سمجھ لیا تھا جسے جانور سواری کا
وہ اونٹ بوجھ اٹھائے گا ذمہ داری کا
میاں شتر کو مبارک یہ رشتۂ شادی
اسی کو کہتے ہیں اردو میں قیدِ آزادی
میاں شتر نئی گاڑی کے سفر کو چلے
مجھے خوشی ہے کہ تم آ گئے پہاڑ کے تلے
مجھے بیاہ کی تصویر بھیج دیں جھٹ پٹ
یہ دیکھنا ہے کہ بیٹھے ہیں آپ کس کروٹ
شبِ وصال نہ کرنا شتر کوئی غمزہ
کہ ناروا ہے اضافت کے بعد اک ہمزہ
شاعر: دلاور فگار