اُس کو کھو دینے کا احساس تو کم باقی ہے
جو ہوا وہ نہ ہوا ہوتا،یہ غم باقی ہے
اب نہ طہ چھت ہے نہ وہ زینہ ،نہ انگور کی بَیل
صرف ایک اس کو بھُلانے کی قسم باقی ہے
میں نے پُوچھا تھا سبب پیڑ گر جانے کا
اُٹھ کے مالی نے کہا اُس کی قلم باقی ہے
جنگ کے فیصلے میداں میں کہاں ہو تے ہیں
جب تلک حافِظے باقی ہے علم باقی ہے
تھک کے گرتا ہے ہرن صرف شکاری کے لیے
جسم گھائل ہے مگر آنکھوں میں رم باقی ہے
ندا فاضلی