اِک حرفِ مسترد تھا , مَیں نے جو کل کہا تھا
ہاں نادرست ٹھہرا , مَیں نے جو کل کہا تھا
یہ سوچ آج مجھ کو شرمندہ کر رہی ہے
ناحق تھا اور بے جا , مَیں نے جو کل کہا تھا
اِس اعتراف میں ہے اب عار کیسی یارو
بالکل نہیں تھا اچّھا , مَیں نے جو کل کہا تھا
تلقین کر رہا ہوں کیا سوچ کر مَیں اُس کو
وہ سب بُھلا دے یارا , مَیں نے جو کل کہا تھا
اِک حادثے کا نکلا یہ منطقی نتیجہ
دُہرا رہی ہے دُنیا , مَیں نے جو کل کہا تھا
آئندہ پر نظر تھی میری اِسی لیے تو
ہے آج اُس کا چرچا , مَیں نے جو کل کہا تھا
جو بات مُشتبہ ہو , اُس پر مُصر نہ ہونا
بے شک یہی تھا جُملہ , مَیں نے جو کل کہا تھا
کیوں ذہن میں نہیں ہے میرے , مَیں کیا بتاؤں
مطلع نئی غزل کا , مَیں نے جو کل کہا تھا
ہے یار آج نادِم اپنے کیے پہ عادِل
یعنی ہوا ہے پُورا , مَیں نے جو کل کہا تھا
عادِل یزدانی چنیوٹ