اس میں کچھ داغ ہیں اور بہت عیب ہیں
تم ذرا دور سے چاند دیکھا کرو
کرکے عیبوں سے صرفِ نظر دل کے تم
نور سے چاند دیکھا کرو
عشق میں چاند کیا خوبصورت لگے
مثل محبوب بس ایک مورت لگے
ایسے دستور سے چاند دیکھا کرو
جب تخیل کے ترشے ہوئے
اک اپالو گیارہ میں تم بیٹھ کر
چاند کی سر زمیں پر قدم رکھ چکے
چاند چھونے کی دل میں تمنا تھی سو
تب ہی نزدیک تم کو بھی جانا پڑا
دل پہ تم ہاتھ رکھ کے تو سوچو ذرا
اب دیو مالائی قصوں میں کیا ہے کشش
چند پتھر ملے تھوڑی مٹی ملی
چاندنی کی کشش تو ہوا ہو گئی
دوستی چاند سے خاک میں جا ملی
عاشقی کا مگر کوئی موسم نہیں
چاند تسخیر ہو کوئی قدغن نہیں
چاند بھی ہے وہی چاندنی بھی وہی
بے قراری وہی عاشقی بھی وہی
ایک عاشق کے دل کی وہی بے کلی
چاندنی دیکھ کر جانے کیوں اب تلک
روح اور دل کے مابین اندر تلک
کچھ سکوں بس اترتا اترتا لگے
چاند محبوب کا اب بھی چہرہ لگے
ایک اسیر محبت کو تو چاندنی
اب بھی بےتاب کرتی ہے سو
روح کو اس کی سیراب کرتی ہے وہ
شمسہ نجم