Apni Ulfat ko Tamasha to banaya na karo
غزل
اپنی الفت کو تماشہ تو بنایا نہ کرو
گیت الفت سے بھرے سب کو سنایا نہ کرو
مار دیتی ہے مروت بھی بڑھے حد سے اگر
ہاں سبھی رشتے مروت سے نبھایا نہ کرو
رو پڑا دل یہ مرا دیکھ کے تیری بے رخی
ہے قسم تجھ کو مجھے ایسے رلایا نہ کرو
یار کہتے ہو جسے مان محبت سے بہت
پھر مری جان اسے یونہی ستایا نہ کرو
ہو زمیں کینہ بھری دل کی تمہارے تو وہاں
گل دکھاوے کی محبت کے اگایا نہ کرو
اس جہاں میں نہیں کرتا کوئی احسان کبھی
پھر بھی کر ڈالے جو کوئی تو بھلایا نہ کرو
مشورہ دیتی ہے ریحانہ زمانے کو یہی
سر سوا رب کے کہیں پر بھی جھکایا نہ کرو
ریحانہ اعجاز
Rehana Aijaz