غزل
اپنی تنہائیوں پہ روتے ہیں
زخم دل روز اپنے دھوتے ہیں
یاد ماضی کو ضبط کرتے ہیں
اور کبھی حال غم سموتے ہیں
وہ تصور میں میرے ہیں ہر دم
جو مرے پاس بھی نہ ہوتے ہیں
لمحے گن گن کے دن گزرتا ہے
رات بھر ہم کبھی نہ سوتے ہیں
گر رہے ہیں جو میرے داماں پر
قطرے خون جگر کے ہوتے ہیں
کوئی سمجھائے جا کے ان کو ذرا
کیوں وہ تیر ستم چبھوتے ہیں
نہ سمجھتے ہوئے مرے غم کو
کشتیٔ آرزو ڈبوتے ہیں
نذر کرنے کو کچھ نہیں ہے اداؔ
آنسوؤں کی لڑی پروتے ہیں
بیگم سلطانہ ذاکر وفا