غزل
اپنی قدرت کی دکھا دے تو نشانی یارب
پھر سے لوٹا دے مجھے میری جوانی یارب
دست و بازو کو مرے ایسی سکت دے دینا
سارے عالم میں کوئی بھی نہ ہو ثانی یارب
مہ جبینوں کو رہے وصل کی حسرت مجھ سے
حسنِ تاباں وہ وجاہت دے پرانی یارب
دل میں کھِلتی رہیں الفت کی بہاریں ہر دم
داستاں عشق کی سب کو ہے سنانی یارب
مجھ کو لوٹا دے جوانی کا وہی جوشِ جنوں
دل کے دریا میں ہو موجوں کی روانی یارب
زلفِ پیچاں میں گرفتار رہوں شاد رہوں
اک نیا عشق نئی پھر ہو کہانی یارب
مئے الفت کے نشے میں رہوں ہر پل سرشار
صبح نغمہ ہو مری شام سہانی یارب
میرے افکار میں ہو نورِ بصیرت افروز
ثاقبِ خام کو دے پختہ بیانی یا رب
رانا افتخار احمد ثاقب