اپنی کم ہوتی بصارت کو مَیں روکوں کیسے
اس مقدر کی شرارت کو مَیں روکوں کیسے
گئے وقتوں میں پلٹ جانے کی خواہش ہے شدید
شوقِ بے حد کی اشارت کو مَیں روکوں کیسے
وقت کے ساتھ جو بڑھتا ہی چلا جاتا ہے
اپنے اس ذوقِ نظارت کو مَیں روکوں کیسے
حملہ زن ہونے کو ہیں جو مرے روشن دل پر
ان اندھیروں کی جسارت کو مَیں روکوں کیسے
کارگر کوئی بھی تدبیر نہیں ہونے کی
گرنے سے دل کی عمارت کو مَیں روکوں کیسے
بند آنکھوں سے زیارت نہیں ممکن , لیکن
خواہش و شوقِ زیارت کو مَیں روکوں کیسے
لکھی جانے کو ہے جو میرے عزائم کے خلاف
عادِل اِک ایسی عبارت کو مَیں روکوں کیسے
عادِل یزدانی چنیوٹ