اپنے احسان کا سرطان ہوں میں
زندگی تجھ سے پشیمان ہوں میں
میں کہ سورج کی طرح چمکا تھا
اب چراغوں سے پریشان ہوں میں
کیا یہ میں تھا جو نظر آتا ہوں
آئنہ دیکھ کہ حیران ہوں میں
دل دھڑکتا ہے تو خوف آتا ہے
کیسی بستی کا نگہبان ہوں میں
کون پہچانے مجھے ارضِ وطن
ذرہ ذرہ کا ترے گیان ہوں میں
تیری مٹی کو بنا کر سونا
آج تک بے سر و سامان ہوں میں
تجھ سے منسوب بھی ہوکر اب تک
اپنے خوابوں سے پریشان ہوں میں
محمو صدیقی