اپنے افسردہ خیالات پہ ہنس دیتے ہیں
کتنے ہی ایسے مقامات پہ ہنس دیتے ہیں
آنکھ بھر آتی ہے جب بھی کسی محرومی پر
ہم اداکار ہیں، حالات پہ ہنس دیتے ہیں
لوگ ہنستے ہیں مسرت کے کسی لمحے میں
ہم ہیں وہ لوگ جو صدمات پہ ہنس دیتے ہیں
توڑ کر ضبط، چھلک جاتی ہے جب آنکھ، تو پھر
اپنی ہی آنکھ کی برسات پہ ہنس دیتے ہیں
ہم بھی کیا لوگ ہیں، واجب ہے ہمارے اوپر
رونے والی بھی ہر اک بات پہ ہنس دیتے ہیں
ہجر میں نغمہ سرائی میں کبھی روتے ہیں
اور پھر اپنے ہی نغمات پہ ہنس دیتے ہیں
ہونے زریؔاب مقابل کسی آئینے کے
اپنی آنکھوں کی کرامات پہ ہنس دیتے ہیں
ہاجرہ نور زریاب