اپنے اندر کی بَلا چاٹ گئی
مجھ کو بس میری انَا چاٹ گئی
آرزؤں کی لحد پر لکھ دو
اِن کو بے جرم سزا چاٹ گئی
کب اندھیروں نے کیا ہے یہ ستَم
میری آنکھوں کو ضیاء چاٹ گئی
تیری راہوں میں جو رکھے تھے چراغ
ان کو بے رحم ہَوا چاٹ گئی
کچھ مجھے تیری وفا نے مارا
کچھ مجھے میری وفا چاٹ گئی
میرے چہرے کی وہ لالی انؔور
کس کے ہاتھوں حنا چاٹ گئی
انور ضیا مشتاق