اپنے بچوں کے لیے درد کما کر آیا
سارا دن شہر میں خوں اپنا جلا کر آیا
بھوک اجرت میں ملی تھی سو وہی پھانکی ہے
اور بچوں کے لیے کچھ میں بچا کر آیا
اس نے ہاتھوں میں جزا اور سزا لے لی تھی
کیا کروں اس کو ہی پھر اپنا خدا کر آیا
میں کسی کا بھی تو احسان نہیں لیتا ہوں
اس لیے خود کو میں اب خود سے جدا کر آیا
ڈھونڈنے اس کو گلی میں تو گیا تھا لیکن
اپنی ہستی کو وہاں آج گنوا کر آیا
اس نے نفرت ہی مجھے کرنا سکھائی لوگو
اس لیے میں بھی اسے خوب بڑھا کر آیا
اس خرابے میں تہہِ خاک ہیں ماں باپ مجید
میں یہاں اس لیے سر اپنا جھکا کر آیا
عبدالمجید راجپوت امبر