اپنے سائے سے بھی ڈرتی ہے تجھے کیا معلوم
زندگی عکس بدلتی ہے تجھے کیا معلوم
دن تو سورج ہے کسی طرح سے ڈھل جاتا ہے
رات آنکھوں میں ٹھہرتی ہے تجھے کیا معلوم
میرے چہرے پے لکھے حرف تو پڑھ لیتا ہے
جو مرے دل پے گزرتی ہے تجھے کیا معلوم
یہ ترے نام سے منسوب بھی ہوسکتی ہے
سانس رہ رہ کے اٹکتی ہے تجھے کیا معلوم
تیری دھن ہے مری پازیب کی جھنکاروں میں
اب تو چوڑی بھی کھنکتی ہے تجھے کیا معلوم
تونے جاتے ہوئے جس شام کو چھوڑا تھا یہاں
وہ سرِ شام سنورتی ہے تجھے کیا معلوم
جانے کس سمت سے آجائے تری یاد قمر
زندگی راستہ تکتی ہے تجھے کیا معلوم
قمرسرور