اپنے سارےخواب گنوا کر آئے ہیں
پھر بھی کچھ تو نام کما کرآئے ہیں
تھوڑی سی تاخیر سے پہنچے ہیں لیکن
اپنا رستہ آپ بنا کر آئے ہیں
لوگ تری تصویر سے باتیں کرتے ہیں
ہم تیری آواز سنا کر آئے ہیں
ہم نے خود سے پہلے منزل پانا تھی
رستے کو رفتار بنا کر آئے ہیں
گھر کی بات تھی گھر میں ہی رکھی انصر
دل کو دل کا حال سنا کر آئے ہیں
انصر رشید انصر