غزل
اپنے گرنے کی خبر تک نہیں پائی میں نے
آخری دوڑ میں وہ جان لگائی میں نے
سانس کو سانس ہی مرنے نہیں دیتی ہے یہاں
کوششیں کر کے بہت دیکھ لیں بھائی میں نے
وقت ہی وہ ہے کہ مجرم مجھے سمجھا جائے
کچھ نہیں ہوگا اگر دی بھی صفائی میں نے
تیری صبحوں کو تر و تازگی دینے کے لیے
رات کی رات ان آنکھوں سے بہائی میں نے
سرد راتوں کا تقاضا تھا بدن جل جائے
پھر وہ اک آگ جو سینے سے لگائی میں نے
تو مجھے گھورتی آنکھوں سے تکے جا رہا ہے
جھوٹ بولا ہے کوئی بات بنائی میں نے
قمر عباس قمر