اچھا تو ہے مگر ہمیں اچھا نہیں لگا
یہ شہر جس میں کوئی بھی اپنا نہیں لگا
بیٹھے ہوئے ہیں خاک پہ خلوت کی چھاؤں میں
صحرا بھی میرے جیسوں کو صحرا نہیں لگا
اپنی جہاں پہنچ تھی وہاں تک پہنچ گئے
یہ اور بات ہے ابھی کتبہ نہیں لگا
مرنے کے انتظار میں بیٹھے تھے آج بھی
نمبر تو لگ رہے تھے, پر اپنا نہیں لگا
ہم ہی سمجھ سکے نہ کبھی زندگی کو یار
جب تک تمھاری تار سے جھٹکا نہیں لگا
کیسے اٹھائے پھرتے ہیں جِسموں کا بوجھ سب
ہم کو تو دل کا بوجھ بھی ہلکا نہیں لگا
اب ہاتھ مت لگا ,یُونہی اُکھڑا رہے یہ رنگ
اے زندگی تو اب ہمیں چُونا نہیں لگا
فیصل محمود