اکثر جوئے کے کھیل میں ہاری گئی ھوں میں
غیرت کے نام پر بھی تو ماری گئی ھوں میں
صیاد زیوروں میں جکڑتا رہا مجھے
پنجرے میں ڈالنے کو سنواری گئی ھوں میں
ناکردہ گناہوں کی سزا بھوگ رہی ھوں
شعلوں سے کئی بار گزاری گئی ھوں میں
کیوں پھر سے کٹہرے میں بلایا گیا مجھے
کیوں پھر صلیب پر سے اتاری گئی ھوں میں
ھے روح داغدار مرے اجلے بدن کی
لہجے کی مار ، مار کے ماری گئی ھوں میں
پھر سے تمہاری یاد دلائی گئی مجھے
پھر سے اسی گلی سے گزاری گئی ھوں میں
تنہائیاں تمہارا پتہ پوچھنے لگیں
جس دن سے زندگی سےتمہاری گئی ھوں میں
میں آسماں پہ چاند ستاروں کی صف میں تھی
تیرے لیئے زمیں پہ اتاری گئی ھوں میں
تم نے جو مسکرا کے تبسم کہا مجھے
تم پر تمہارے نام پہ واری گئی ھوں میں
"جہاںآراء تبسم”