اک آنکھ درِ ہجر پہ معمور کرے ہے
یہ دل جو ہمیں رونے پہ مجبور کرے ہے
یوں ماں سے جدا ہوتے ہیں بچے بھلا کیونکر
یہ کارِ زمانہ ہی انہیں دور کرے ہے
یہ کیسی عبادت ہے جو جنت کے لیے ہے
مائل بہ خدا تجھ کو فقط حور کرے ہے
وہ ڈھیر ہے مٹی کا اگر سانس نہ آئے
پھر کون سی خوبی ہے جو مغرور کرے ہے
کردار میں کامل ہے ذرا یہ بھی تو دیکھو
گفتار سے اپنی جو یہ محسور کرے ہے
رحمت کے طلب گار ہیں عاجز ہیں یہ بندے
بس اتنی گزارش ہے جو منظور کرے ہے
نیلما ناہید درانی