اک تلاطم میں سدا بحرِ یقیں رہتا ہے
کوئی تو ہے جو مرے دل کے قریں رہتا ہے
نازنینوں سی ادائیں نہ دکھائیں صاحب
آپ کی ہاں میں مکیں صرف نہیں رہتا ہے
دل سے اللّٰہ کو کرتے ہی نہیں یاد کبھی
نقص نیت میں کہیں زیرِ جبیں رہتا ہے
میں ہوں قارون کا اک ایسا خزانہ جو سدا
دفن رہتا ہے کہیں زیرِ زمیں رہتا ہے
روح بھٹکے گی مری شیش محل میں کب تک
میرا شہزادہ کہاں جلوہ نشیں رہتا ہے
اب تو اپنا لے مجھے دل کی ریاست تیری
کس جگہ خیمہ نشیں دل کے مکیں رہتا ہے
شیشہء دل پہ مرے ضرب کراری نہ لگا
نرم احساس یہاں خیمہ نشیں رہتا ہے
اپنی اغلاط سے واقف ہوں ہمیشہ شہناز
اپنے بارے میں گماں مجھ کو نہیں رہتا ہے
شہناز رحمت