اک وقت میں پھولوں کے بڑے ٹھاٹھ رہے ہیں
سوکھے تو ہواؤں کے تلے چاٹ رہے ہیں
پچھتائیں گے اک روز کڑی دھوپ پڑی تو
جو لوگ محبت کے شجر کاٹ رہے ہیں
پیا سوں کو کھلے ملتے ہیں دروازے ہمارے
ہم پچھلے جنم میں بھی کوئی گھاٹ رہے ہیں
جس سمت بھی ہو جائیں وہ جھک جاتے ہیں پلڑے
کچھ لوگ ترازو کے سدا باٹ رہے ہیں
آسان نہیں ہوتی بڑے لوگوں سے یاری
قالین بھی ہوں گے تو فقط ٹاٹ رھے ہیں
انداز محبت کے نرا لے ہیں کسی کے
ہفتے میں لڑائی کے بھی دن آٹھ رہے ہیں
آیا ہے کوئی تیسرا پھر بیچ ہمارے
ہم برسوں تو خوش باش تھے فٹ فاٹ رہے ہیں
فوزیہ شیخ