غزل
اک چاہ کی نگاہ کا افسانہ بن گیا
وہ انگلیاں اٹھیں کہ میں دیوانہ بن گیا
اپنے ہی دل کی بات ہے اپنے کئے کی لاج
کعبہ بنا رہا تھا میں بت خانہ بن گیا
اللہ رے بزم ناز تری ناشناسیاں
جس کو کیا سلام وہ بیگانہ بن گیا
چپکے سے ان کا نام لیا دل سے بات کی
یہ کون سن رہا تھا کہ افسانہ بن گیا
خلاق حسن و عشق بڑا دل نواز ہے
تخلیق شمع ہوتے ہی پروانہ بن گیا
دنیا کے تخت و تاج رضاؔ ٹھوکروں پہ ہیں
کیا چیز اپنا ٹھاٹھ فقیرانہ بن گیا
آل۔ رضا رضا