اک چراغِ آرزو پھر سے جلانا ہے مجھے
راستہ تم کو نہیں، خود کو دکھانا ہے مجھے
رہزنوں کو دے دیا ہے میں نے تاوان سفر
کارواں کو منزلوں تک لے کے جانا ہے مجھے
تار ٹوٹے، ساز بکھرے، گو ترنم نہ سہی
نغمہ ہائے زندگی تو گنگنانا ہے مجھے
کہکشاں پر چل نہ پائے یہ قدم تو کیا ہوا
راہِ مقتل کو ستاروں سے سجانا ہے مجھے
میں شکستہ دم ہوں لیکن یہ شکستِ دل نہیں
اک نئی ترتیب سے لشکر بڑھانا ہے مجھے
میں وطن سے دور ہوں پر ماں ہے میری منتظر
دھرتی ماں نے جب بلایا ،لوٹ جانا ہے مجھے
میرے آنسو کب ہیں واعظ تیری جنت کے لئے
آتشِ دوزخ کو اشکوں سے بجھانا ہے مجھے
وقت کی کرب و بلا سے میں نے سیکھا ہے ہنر
ہار جاؤں گا مگر، پھر جیت جانا ہے مجھے
میں نہیں چلتا ہوائے وقت کی رفتار پر
ساتھ اپنے ان ہواؤں کو چلانا ہے مجھے
تتلیوں کے رنگ، خوشبو اور جگنو چاہئیں
اپنے بچوں کیلئے اک گھر بنانا ہے مجھے
ہے اندھیرا اس قدر کہ اب دیا کافی نہیں
روشنی کے واسطے سورج جلانا ہے مجھے
نام جب آزُردگی کا شادمانی رکھ دیا
دوستو! اب کس طرح ، کس نے ستانا ہے مجھے
ہر طرف چسپاں کرو تصویرِ حُورانِ بہشت
شیخ جی کو میکدے میں آج لانا ہے مجھے
سوچ کر کچھ اس سگِ رَہ سے ہے رسم و راہ کی
اُس گلی میں اب تو اکثر آنا جانا ہے مجھے
جل رہا ہے شہر میرا نفرتوں کی آگ میں
ایک دریائے محبت پھر بہانا ہے مجھے
جاگ جاؤ اس بھیانک خواب سے الطاف اب
اک سہانا خواب تم کو پھر دکھانا ہے مجھے۔
سید الطاف بخاری