اک ہتھیلی پہ اک دروں ہوتا
دل زمانے سے چہ مگوں ہوتا
بن کے اک جھیل عمر بھر بہتی
آنکھ کا رنگ نیل گوں ہوتا
سوچتی ہوں کہ عشق گر تم سے
ہو بھی جاتا اگر تو کیوں ہوتا
کس کے قدموں پہ سجدہ گاہ ہوتی
کس کے در پر یہ سر نگوں ہوتا
بات کرنے سے حل ہوا ورنہ
مسئلہ اب بھی جوں کا توں ہوتا
یہ تو اچھا ہے چھوڑ دی بستی
ورنہ سر پر سوار خوں ہوتا
سلسلہ مختصر تھا فرقت کا
وہ مرے حافظے میں کیوں ہوتا
کاش سیما کی مان لیتے وہ
کاش دل اپنا پُر سکوں ہوتا
عشرت معین سیما