غزل
اگرچہ دل تھا غموں سے فگار اور رہا
مگر گلہ تھا زبس ناگوار اور رہا
کسی کو راہ مرے گھر کی یاد ہی نہ رہی
میں انتظار میں تھا بے قرار اور رہا
زمانہ کھائے گا قسمیں ہماری عظمت کی
یہ دور غم جو ذرا سازگار اور رہا
ہوا ہے کب سفر زندگی تمام کہ جب
نہ راستے میں کوئی خار زار اور رہا
سحاب لطف نہ کشت امید پر برسا
چمن کرم کا تھا امیدوار اور رہا
یہ لیجئے دل صد پارہ اور حاضر ہے
یہ ایک کشتۂ لیل و نہار اور رہا
یہی ازل سے ہے دستور دوستی فطرتؔ
وفا کا تشنہ تھا ہر دوست دار اور رہا
عبدالعزیز فطرت