اگرچہ سامنے میرے فقط خلا نا تھا
نہ ہمسفر نہ کوئی آخری ٹھکانہ تھا
مرے وجود سے آگے بھی اک زمانہ ہے
مرے وجود سے پہلے بھی اک زمانہ تھا
میں یوں بھی خود سے ملاقات سے گریزاں ہوں
وفورِ زخم کا تو بس یہ اک بہانہ تھا
دیارِ غیر سے آئے ہوئے امیروں نے
غریبِ شہر سے رشتہ کہاں نبھانا تھا
اُسی گلی میں ابھی اک فقیر رہتا ہے
جہاں پہ اپنا کسی دور میں خزانہ تھا
ہزار بار ملا ہوں اسے تصور میں
وہ جس سے میرا تعلق بھی غائبانہ تھا
میں دل کا بوجھ اُٹھائے ہوئے جو پھرتا ہوں
نجانے کس کے تخیل کا یہ فسانہ تھا
بچھڑ گئے ہیں مرے دل میں رہنے والے لوگ
عروسِ مرگ نے یہ کھیل بھی دکھانا تھا
ہوا کی سرد ہتھیلی پہ آگیا ہوں ولی
اسی پہاڑ پہ اپنا بھی آب و دانہ تھا
شاہ روم خان ولی
Shah room Khan Wali