غزل
اگر آدمی وقت کا راز پا لے
تو ممکن ہے لمحہ بھی صدیوں کو جا لے
میں الفاظ کی کنجیاں ڈھالتا ہوں
کھلیں گے کسی روز ابجد کے تالے
گزرتا ہوا وقت رک سا گیا ہے
پرندے ہیں دو چونچ میں چونچ ڈالے
زمیں کی کمر تو ہے پہلے سے کوزہ
وہی بوجھ رکھیو جسے یہ اٹھا لے
یہ ہجرت بھی جیسے عبث کی گئی ہو
یہاں بھی وہی لوگ ہیں دیکھے بھالے
یقیں چھپ گئے ہیں گمانوں کے پیچھے
گماں کہہ رہے ہیں ہمیں آزما لے
ہمیشہ نہیں رہتا دل کار آمد
ابھی وقت ہے تو یہ سکہ چلا لے
سفر کی بشارت ملی دل پکارا
یہ گھر میرا گلشن خدا کے حوالے
رحمان حفیظ