Agar Bikhar Gaya hoon Main
غزل
اگر بکھر گیا ہوں میں
تو اب کدھر گیا ہوں میں
وہ ماننے پہ تھا مجھے
مگر مُکر گیا ہوں میں
گلی میں ایک دشت ہے
گلی گزر گیا ہوں میں
میں خواب تھا کمال کا
ذرا بکھر گیا ہوں میں
فلک پہ اِک نشیب ہے
وہاں اُتر گیا ہوں میں
تمہی سے پیار تھا مجھے
تمہی سے ڈر گیا ہوں میں
اِدھر اُدھر بھی کچھ نہیں
اِدھر اُدھر گیا ہوں میں
مقصود وفا
Maqsood Wafa