غزل
اگر دینا ہو دل کی داد جتنا اس کا جی چاہے
تو کرنے دو اسے فریاد جتنا اس کا جی چاہے
ملی ہیں یار کی گلیاں ہمیں مجنوں سے یہ کہیو
کرے ویرانے کو آباد جتنا اس کا جی چاہے
نہیں ممکن کہ ہم کعبہ کو جائیں چھوڑ بت خانہ
کرے واعظ ہمیں ارشاد جتنا اس کا جی چاہے
وفا کا طوق ہے قمری صفت جزو بدن میرا
کرے جور و ستم صیاد جتنا اس کا جی چاہے
یقیںؔ مجھ بن نہیں ہے قدرداں کوئی مصیبت کا
فلک مجھ پر کرے بیداد جتنا اس کا جی چاہے
انعام اللہ خاں یقیں